میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کی تحقیق بتلائیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق قرآن تھا، مجھے کئی گھنٹے ہو چکے ہیں اور میں اس کی دلیل تلاش کر رہا ہوں لیکن ابھی تک میں کامیاب نہیں ہوا۔
قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق
سوال: 71184
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جی ہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی توصیف کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔
جیسے کہ سعد بن ہشام بن عامر کے طویل واقعہ میں ہے کہ جب وہ مدینہ تشریف لائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ کر متعدد مسائل کے جوابات دریافت کیے، تو انہی سوالات میں ہے کہ:
"میں نے کہا: ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں بتلائیں؟
تو سیدہ عائشہ نے کہا: کیا آپ قرآن کریم نہیں پڑھتے؟
میں نے کہا: کیوں نہیں، پڑھتا ہوں۔
تو انہوں نے کہا: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق قرآن کریم تھا۔
سیدنا سعد کہتے ہیں: پھر میں نے عزم کر لیا کہ میں اب اٹھ کر چلا جاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کوئی سوال مت کروں۔ " مسلم: (746)
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں:
"میں نے کہا: ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں بتلائیں۔
تو انہوں نے کہا: بیٹا کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یعنی: یقیناً آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق قرآن تھا۔"
اس روایت کو ابو یعلی: (8/275) نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم(8/275) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم پر ہی عمل فرماتے ہیں، قرآنی حدود سے تجاوز نہیں فرماتے، اور قرآن کریم کے آداب اپناتے ہیں، قرآنی مثالوں اور واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نیز تدبر قرآن کے ساتھ ساتھ بہترین انداز سے اس کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔" ختم شد
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ "جامع العلوم والحكم" (1/148) میں کہتے ہیں:
"مطلب یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنی آداب اپناتے ہیں اور قرآنی اخلاقیات پر عمل کرتے ہیں چنانچہ قرآن کریم جس چیز کو اچھا کہے اسے آپ بھی اچھا سمجھتے ، اور جس چیز کو قرآن کریم نے مذموم قرار دیا اسے آپ بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ ہیں کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق قرآن تھا، جس پر قرآن راضی اس سے آپ بھی راضی ہوتے تھے، اور جس چیز کو قرآن ناگوار قرار دے تو آپ بھی اسے ناگوار سمجھتے تھے۔) "ختم شد
اسی طرح علامہ مناوی رحمہ اللہ "فيض القدير" (5/170) میں کہتے ہیں:
"یعنی: مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو احکامات اور نواہی بیان کیے ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنی وعدوں اور وعیدوں وغیرہ پر عمل پیرا ہوتے تھے۔
قاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق ان تمام چیزوں کا عملی نمونہ تھا جو قرآن کریم سے حاصل ہوتی تھیں؛ چنانچہ جس جس چیز کی بھی قرآن کریم نے مدح سرائی اور توصیف بیان فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و سلم میں وہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی، اور جس جس بات کی قرآن کریم نے مذمت بیان فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے دور ہوتے تھے اور اجتناب فرماتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم کا عملی بیان تھے۔۔۔" ختم شد
دوم:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہم پر حق ہے کہ ہم آپ کی خوبیاں اور اوصاف بیان کریں؛ خصوصاً ان ایام میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت کے خلاف بہت سے جھوٹے دعوے اور الزامات لگائے جاتے ہیں، تا کہ پوری دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت کے بارے میں علم ہو کہ آپ کی ذات پاکیزہ ترین، عظیم ترین اور کریم ترین شخصیت تھی۔
ابو حامد غزالی رحمہ اللہ "إحياء علوم الدين" (2/430-442) میں کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جملہ خوبیوں اور خصائص کو بہت سے علمائے کرام نے مختلف احادیث اور واقعات سے اکٹھا کر کے ایک جگہ جمع کیا ہے، انہیں ذیل میں مختصراً پیش کیا جاتا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار، دلیر، انصاف پسند اور پاکدامن تھے۔ آپ کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، جب تک کہ وہ آپ کی ملکیت یا زوجیت میں نہ آ گئی یا وہ آپ کی محرم تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رات کے لیے بھی کوئی دینار یا درہم اپنے پاس نہیں رکھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ضرورت سے زیادہ کوئی چیز ہوتی اور رات ہونے سے پہلے اسے دینے کے لیے کوئی نہ ملتا تو آپ اس وقت تک گھر واپس نہیں آتے تھے جب تک کہ اسے کسی ضرورت مند کو نہ دے دیں۔ جو کچھ اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا اس میں سے صرف ایک سال کی کھجوریں اور جو اپنے پاس رکھتے تھے بقیہ سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے دے دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جس نے کچھ بھی مانگا آپ نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ عنایت کر دیا، پھر آپ اپنے رکھے ہوئے سالانہ راشن میں سے بھی ضرورت مند لوگوں کو عطیہ کر دیتے تھے ، اور اکثر سال پورا ہونے سے پہلے راشن ختم ہو جاتا تھا اور نیا راشن ابھی نہ پہنچتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے جوتے خود گانٹھ لیا کرتے تھے اور اپنے کپڑوں پر خود پیوند لگا لیا کرتے تھے، اور اکثر گھر کے کاموں میں اپنے اہل خانہ کی مدد کرتے تھے، اور ان کے لیے ساتھ گوشت کٹوا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سے زیادہ حیا والے تھے اور کسی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم غلام یا آزاد سب کی دعوت یکساں طور پر قبول فرما لیتے اور ہدیہ قبول فرماتے خواہ دودھ کا گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، اور پھر اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم صدقے کا مال نہیں کھاتے تھے، اور جب کوئی لونڈی یا غریب مسکین آپ کو دعوت دیتے تو کبھی انکار نہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حقوق اللہ کی پامالی پر غصے کا اظہار کرتے تھے لیکن جب آپ کی ذاتی حق تلفی ہوتی تو پھر غصہ نہیں کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم حق بات کو نافذ کرتے تھے خواہ اس سے آپ کو یا آپ کے صحابہ کرام کو نقصان پہنچے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بہترین ساتھیوں میں سے ایک کو ایک ایسے علاقے میں مقتول پایا جہاں یہودی رہتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کے ساتھ سختی نہیں کی اور نہ ہی شریعت کے حکم سے تجاوز کیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طرف سے سو اونٹوں کی دیت ادا کر دی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اگر اپنے صحابہ کو ایک اونٹ بھی دے دیتے تو یہ ان کی ضرورت پوری کر سکتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھوک کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے اپنے پیٹ پر چٹان باندھتے اور حلال کھانے سے انکار نہیں کرتے اور نہ ٹیک لگا کر کھاتے اور نہ آپ نے کبھی ٹیبل پر کھانا کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری زندگی کبھی لگاتار تین دن تک پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھائی، اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی تھی کہ آپ غریب تھے یا کنجوسی کی وجہ سے ایسے کرتے تھے بلکہ پیٹ بھر کر کھانے کے بجائے دوسروں کو دے دینا پسند کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ولیمے کی دعوت قبول فرماتے، بیماروں کی عیادت کرتے اور جنازوں میں شرکت فرماتے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دشمنوں کے درمیان بھی بغیر کسی محافظ کے اکیلے چلتے تھے۔ آپ نہایت منکسر المزاج، تکبر کی بجائے تواضع اپناتے، مختصر اور جامع گفتگو فرماتے تھے، آپ خوش مزاج تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیاوی معاملات کی کبھی فکر نہیں کی۔ جو پہننے کو مل گیا زیب تن فرما لیتے، اور اپنے غلام یا کسی اور کو اپنی سواری پر پیچھے بٹھا لیتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو کچھ میسر آتا ، مثلاً؛ گھوڑا، اونٹ، یا خچر اور کبھی گدھا تو اس پر بھی سواری کر لیتے تھے۔ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ و سلم ننگے پاؤں چلتے تھے، اور کبھی تو بغیر چادر، پگڑی یا ٹوپی کے مدینہ کے دور دراز علاقوں میں بیماروں کی عیادت کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوشبو سے محبت اور بد بو سے نفرت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم غریبوں کے ساتھ بیٹھتے اور مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے، نیک لوگوں کی تعظیم کرتے اور با اثر لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کے دلوں کو نرم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو ان سے بہتر لوگوں پر ترجیح دیے بغیر رشتہ داری کو برقرار رکھا اور کسی کے ساتھ سختی نہیں کی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم معافی مانگنے والوں کا عذر قبول فرما لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مذاق میں بھی سچ بولتے تھے، اور قہقہہ لگائے بغیر مسکرا دیتے تھے۔
اگر آپ کسی کو جائز کھیل کود میں مشغول دیکھتے تو اسے روکتے نہیں تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اہلیہ کے ساتھ دوڑ بھی لگائی۔ بسا اوقات آپ کی زوجہ محترمہ آپ کے سامنے اونچا بھی بول لیتی تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر سے کام لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام، لونڈیاں بھی تھیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے بہتر نہ کبھی کھایا نہ ہی کبھی ان سے اچھا لباس پہنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے وقت کی قدر فرماتے تھے اور کوئی بھی لمحہ اللہ تعالی کی عبادت یا ذاتی ضروری کام میں مشغولیت کے بغیر گزرنے نہیں دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی غریب کو اس کی غربت یا دائمی بیماری کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے، اور کسی بادشاہ کی بادشاہت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب کو یکساں طور پر اللہ کی طرف دعوت دیتے تھے۔
ابو البختری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مؤمنوں میں سے کسی کو گالی نہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا فرمائی کہ اگر کسی کو برا بھلا کہا ہو تو وہ متعلقہ مومن کے لیے کفارہ اور رحمت بن جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں، لعنت کرنے والا نہیں)۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی کے خلاف بد دعا مانگنے کو کہا جاتا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے خلاف بد دعا کرنے کی بجائے اس کے حق میں دعا فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری زندگی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ ہمیشہ آسان آپشن کا انتخاب کرتے تھے، الا کہ اس میں گناہ یا قطع تعلقی کا خدشہ ہو تو پھر آسان آپشن نہیں لیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کا تذکرہ آپ کی بعثت سے بھی پہلے تورات میں فرمایا اور کہا: اللہ کا پیغمبر محمد میرا برگزیدہ بندہ ہے؛ وہ سخت یا روکھے پن والا نہیں ہے، اور بازار میں شور نہیں مچاتا۔ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا بلکہ معاف کرے گا اور درگزر کرے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار تھا کہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس سے بھی ملتے سلام میں پہل فرماتے تھے اور اگر کوئی آپ کے پاس حاجت کے لیے آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود مجلس برخواست نہ کرتے تھے جب تک کہ ملنے والا مجلس برخواست کرنا چاہے۔ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ پکڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنا ہاتھ نہ چھڑواتے یہاں تک کہ ملنے والا خود ہاتھ چھوڑ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں تو کوئی آپ کو صحابہ کرام سے ممتاز دیکھ کر پہچان نہیں پاتا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظّاً غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ ترجمہ: اللہ کی رحمت سے آپ ان کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آئے۔ اور اگر آپ سخت مزاج اور سنگ دل ہوتے تو وہ آپ کے ارد گرد سے تتربتر ہو جاتے۔ [آل عمران 3:159]
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین سلیقہ اور اخلاق کے ساتھ لوگوں اور حالات سے نمٹنے کا بہترین طریقہ بھی عطا کیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی پڑھ سکتے تھے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پرورش ایک علم و معرفت سے دور صحرائی سرزمین میں ایک غریب اور بھیڑ بکریاں چرانے والے یتیم کی حالت میں ہوئی آپ کے بچپن میں نہ باپ تھا نہ والدہ ۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام اچھی خصلتیں اور اچھے طریقے سکھائے ، پھر آپ کو سابقہ اور لاحقہ اقوام کے واقعات سکھائے اور وہ تمام چیزیں بتلائیں جو آخرت میں کامیابی اور نجات جبکہ دنیا میں سعادت مندی اور خوش حالی کا باعث بنتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھایا کہ اپنے فرائض پر توجہ دیں اور ان پر عمل کریں۔ جبکہ غیر ضروری چیزوں سے دور رہیں۔
اللہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات پر عمل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عملی کردار پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔" کچھ اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
اب کوئی شخص نہ سمجھے کہ مندرجہ بالا تحریر جوش خطابت کے الفاظ ہیں! بلکہ اس تحریر کا ایک ایک جملہ مسند، صحیح اور کتب حدیث میں صحیح اسانید کے ساتھ دسیوں دلائل رکھتا ہے، لیکن یہاں پر ہر جملے کی دلیل اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں پیش کی گئی، اگر کسی کو مفصل اور مدلل تحریر چاہیے تو امام ترمذی کی کتاب: شمائل محمدیہ کا مطالعہ کرے۔ [جو کہ اردو ترجمہ کے ساتھ اس لنک پر موجود ہے۔ مترجم]
سوم:
اور آخر میں آپ کو نصیحت کرنا چاہوں گا کہ آپ ایسی چیزوں کی تلاش کے لیے کمپیوٹر سافٹ وئیر استعمال کریں جو کہ -الحمد للہ-اس وقت بہت زیادہ ہیں، اس سے آپ کا وقت بھی بچے گا، اسی طرح آپ ان سافٹ وئیرز کے ذریعے جن احادیث تک پہنچنا چاہیں آپ فوری رسائی حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ آپ کو ان احادیث کا حکم بھی فوری معلوم ہو جائے گا، نیز میں آپ کو کچھ جامع نوعیت کی کتب خریدنے کا بھی مشورہ دوں گا کہ جن میں احادیث نبویہ کو موضوع کے مطابق مرتب کیا گیا ہے، چنانچہ آسان ترین کتاب امام نووی رحمہ اللہ کی ریاض الصالحین اور اسی طرح علامہ منذری رحمہ اللہ کی الترغیب و الترھیب کا مطالعہ کریں، انہوں نے احادیث کو موضوعات کے مطابق ترتیب دیا ہے، انہوں نے کوشش کی ہے کہ متعلقہ موضوع سے تعلق رکھنے والی تمام احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے، پھر اہل علم نے ان کتابوں کی مزید تحقیق کی بھی ہے کہ ان میں جو روایات صحیح یا ضعیف ہیں انہیں واضح کر دیا جائے، ان کتابوں کی تحقیق کرنے والوں میں امام البانیؒ بھی شامل ہیں۔
میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو تلاش اور جستجو کے لیے کی ہوئی محنت پر اجر عطا فرمائے، اور میں اللہ تعالی سے یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو ایسے کام کرنے کی توفیق دے جن میں خیر و برکت ہو۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب