ميرا ايك مسلمان دوست جو صوفى فكر ركھتا ہے اس نے ميرے ساتھ بہت بھلائى اور خير كے كام كيے ہيں اور وہ علماء كے دروس ميں ہميشہ شريك ہوتا ہے ميرے ليے اسے سلفى اور اہل سنت كے منہج كى دعوت دينا كس طرح ممكن ہے، كيونكہ علماء ميں ميرى مدد كرنے والا كوئى نہيں، يہ بھى علم ميں رہے كہ صوفيوں كو مطمئن كرنا بہت مشكل ہے، اور خاص كر ان علماء كے درميان رہتے ہوئے، اور يہ بھى كہ وہ لوگ سلفي حضرات پر تكفير كى تہمت لگاتے ہيں ؟
منہج اہل سنت و الجماعت كى دعوت
سوال: 75099
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو اپنے بھائى كے ليے دينى خيرخواہى كى حرص اور اس كے بھلائى كى كوشش ركھنے پر اجر عظيم عطا فرمائے، بلاشك بندے پر اللہ كى سب سے عظيم نعمت يہ ہے كہ وہ اپنے دل كو دعوت الى اللہ ميں مشغول ركھے اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كے فريضہ سے دل كو معمور كرتے ہوئے زندہ ركھے.
دعوت الى اللہ كا كام كرنے والا شخص اپنى دعوت ميں علم و بصيرت كا محتاج ہوتا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ہوشمند اور عقل و خرد كے مالك اور دعوت الى اللہ كا خيال ركھنے والے مسلمان نوجوان ذرا اس فرمان بارى تعالى پر تامل اور غور كرو:
كہہ ديجئے ميرى راہ يہى ہے ميں اور ميرے متبعين اللہ كى طرف پورے يقين اور اعتماد و بصيرت كے ساتھ دعوت ديتے ہيں اللہ پاك ہے اور ميں مشركوں ميں سے نہيں يوسف (108 ).
يعنى جس كى دعوت دے رہے ہو اس كى بصيرت ہو، اور جسے دعوت دے رہے ہو اس كے حال كى بھى بصيرت ركھتے ہو، اور دعوت كى كيفيت كى بھى بصيرت ہونى چاہيے، تو اس سے يہ علم ہوا كہ دعوت كى كچھ شروط ہيں جن كا پايا جانا ضرورى ہے ان ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
اول:
جس كى دعوت دى جا رہى ہے اس كى بصيرت ہونى چاہيے يعنى جس كى دعوت دے رہا ہے اس حكم شرعى كا عالم ہو؛ كيونكہ ہو سكتا ہے وہ كسى ايسى چيز كى دعوت دے رہا ہو جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ واجب ہے، ليكن شرع ميں وہ واجب نہ ہو.
اس طرح وہ اللہ كے بندوں پر وہ كام لازم كر دے جسے اللہ نے لازم نہيں كيا، اور ہو سكتا ہے وہ كسى چيز اور كام كے ترك كرنے كى دعوت دے جس كے متعلق اس كا خيال ہو كہ وہ حرام ہے، ليكن اللہ كے دين ميں وہ حرام نہ ہو، اس طرح وہ اللہ كے بندوں پر اللہ نے جو حلال كيا ہے اسے حرام كر دے.
دوم:
اسے مدعو يعنى جسے دعوت دى جا رہى ہے كے حال كا بھى علم و بصيرت ہونى چاہيے: آپ كے ليے مدعو كى حالت كا علم ركھنا ضرورى ہے، اس كى تعليمى قابليت كيا ہے ؟ وہ بحث كى كتنى قابليت ركھتا ہے ؟ تا كہ آپ اس كے ساتھ بحث و مناقشہ كرنے كى تيارى كر سكيں؛ كيونكہ اگر آپ اس طرح كے شخص كے ساتھ بحث و مناقشہ كرنے لگيں تو اس كے قوت مناظرہ اور مناقشہ كى بنا پر معاملہ آپ كے خلاف ہو جائيگا.
تو اس طرح آپ كے سبب حق پر آزمائش و مصيبت ہو گى يہ خيال مت كريں كہ باطل پر چلنے والا شخص ہر حال ميں نرم اور ايزى ہوتا ہے.
سوم:
دعوت دينے والا دعوت كى كيفت كى بصيرت ركھتا ہو، اس ليے ميں اپنے دعوت دينے والے بھائيوں كو ابھارتا ہوں كہ وہ دعوت ميں حكمت نرمى اختيار كريں انہيں علم ہو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ جسے چاہتا ہے حكمت عطا فرماتا ہے، اور جسے حكمت دے دى جائے تو اسے خير كثير عطا كر دى گئى اور اس سے نصيحت صرف عقلمند ہى حاصل كرتے ہيں البقرۃ ( 269 ).
ديكھيں: فتاوى الحرم المكى ( 1063 – 1066 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
مزيد آپ سوال نمبر ( 2023 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
يہاں بعض امور كى نشاندہى اور تنبيہ كرنا ضرورى ہے:
اول:
آپ عمومى اسلوب استعمال نہ كريں، مثلا يہ كہ آپ اصلا فكر صوفي اور تصوف پر بدعت و گمراہى كا حكم لگائيں، يا پھر سب صوفيوں پر گمراہ ہونے كا ليبل لگا ديں، بلكہ اپنى كلام ميں اس حكم سے احتراز كريں، اس كى بجائے آپ يہ كہيں كہ صوفيوں يا كسى اور گروہ ميں سے جو كوئى شخص بھى يہ فعل اور عمل كرے وہ بدعت كا مرتكب ٹھرے گا، يا اس طرح كى كوئى اور عبارت استعمال كريں.
علماء كرام نے مكمل تصوف پر گمراہى كا حكم نہيں لگايا بلكہ اسے تصوف كو تين اقسام ميں تقسيم كيا ہے اور پھر اس ميں سے جو سنت كے موافق ہے اور جو سنت كے منافى و مخالف ہے اس تفصيلا بيان كيا ہے.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” متصوفہ كى دو قسميں ہيں:
متصوفہ سنى، يعنى سنت پر عمل كرنے والے صوفياء كرام اور متصوفہ بدعتى يعنى بدعات پر عمل كرنے والے صوفى، اور ان صوفيوں ميں سے مقتصد قسم كے لوگوں ميں بہت قليل بدعات پائى جاتى ہيں، اور بعض كے ہاں بہت زيادہ، اور انہوں نے تصوف كو وحدۃ الوجود كا راہ بنا ليا ہے ” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن ابراہيم ( 1 ) فتوى نمبر ( 192 ).
اگرچہ اس وقت صوفيوں كى غالب اكثريت بدعات و گمراہى كا شكار ہے، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر (20375 ) اور (47431 ) اور (4983 ) كے جوابات ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
آپ كے ليے اس كے ساتھ اس طرح كى بات كر كے كلام كا آغاز كرنا ممكن ہے اور پھر آپ اپنے اس دوست كو كہيں كہ جو صوفى فكر ركھتا ہے كہ وہ خود فيصلہ كرے كہ كتاب و سنت كيا كہتى ہے اور اس كى صوفى فكر كس طرف لاتى ہے، اس ليے كتاب و سنت پر عمل كرنا فرض و ضرورى ہے اگر وہ حق پر ہے تو الحمد للہ اور اگر كتاب و سنت كے مطابق اس كى يہ صوفى فكر باطل ہے تو ان شاء اللہ وہ اس سے رجوع كر لے گا.
دوم:
اور ا سكا سلفى اور اہل حديث يعنى كتاب و سنت پر عمل كرنے والوں پر تكفير كى تہمت لگانا كہ وہ لوگوں كو كافر كہتے ہيں، يہ تہمت تو ہم بہت دفع سن چكے ہيں، جس كے كافر ہونے كى دليل ثابت ہو جائے اس كو كافر كہنے ميں كوئى عيب اور غلط نہيں.
بلكہ عيب و غلط تو يہ ہے كہ جس كے خلاف دليل مل جائے كہ وہ كافر ہو جائے اور اسے كافر نہ كہا جائے، ہم اس سے انكار نہيں كرتے كہ بعض سلفى حضرات كى طرف منسوب لوگ لفظ كفر كے اطلاق ميں تساہل سے كام ليتے ہيں، ليكن اہل سنت و الجماعت اور سلفى و اہل حديث حضرات كا يہ طريقہ اور منہج نہيں.
كيونكہ اہل سنت و الجماعت يعنى سلفى اور اہل حديث كہلوانے والے كسى كو صرف معصيت و نافرمانى كى بنا پر كافر نہيں كہتے چاہے وہ گناہ كبيرہ كا ہى مرتكب كيوں نہ ٹھرے، بلكہ اس كے ليے اس كا ثبوت ملنا ضرورى ہے كہ اس كا وہ عمل كسى شرعى دليل كے ساتھ كفر پر دلالت كرتا ہو اور پھر اس ميں كسى كے كافر ہونے كى شروط كا پايا جانا اور اس كے موانع نہ ہوں تا كہ اس پر كفر كا حكم لگايا جا سكے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اہل سنت و الجماعت كا مسلك و مذہب يہ ہے كہ وہ اہل قبلہ كو صرف گناہ كى بنا پر كافر نہيں كہتے، اور نہ ہى فقط تاويل كى وجہ سے كافر قرار ديتے ہيں، بلكہ اگر فرد واحد ميں نيكياں اور بدياں دونوں پائى جاتى ہيں تو اس كا معاملہ اللہ كے سپرد ہے ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 27 / 478 ).
اور ايك دوسرى جگہ كہتے ہيں:
” كسى شخص كے ليے بھى كسى مسلمان شخص كو كسى غلطى اور خطا كى بنا پر اس وقت تك كافر قرار دينا جائز نہيں جب تك كہ اس كے كفر كى دليل و حجت ثابت نہ ہو، اور جس كا يقينى طور پر اسلام ثابت ہو جائے تو وہ صرف شك كى بنا پر زائل نہيں ہو سكتا، بلكہ اس كا اسلام تو حجت قائم ہونے اور شبہ زائل ہونے كے بعد ہى زائل ہو گا ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 12 / 466 ).
اور انہوں نے يہ بھى بيان كيا ہے كہ اہل سنت اپنے مخالف كو كافر نہيں كہتے چاہے ان كا مخالف ـ بعض اوقات ـ كفر پر بھى ہو شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اہل سنت كے آئمہ اور اہل علم ميں عدل و انصاف اور رحمت ہے وہ اس حق كو پہچانتے ہيں جس پر ہيں اور سنت كے موافق اور بدعات سے سليم ہيں، وہ اپنے مخالف كے معاملہ ميں عدل و انصاف كرتے ہيں چاہے ان كا مخالف ان پر ظلم ہى كرے جس طرح اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم اللہ كى خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، اور حق و انصاف كے ساتھ گواہى دينے والے بن جاؤ، كسى قوم كى عداوت و دشمنى تمہيں خلاف عدل پر آمادہ نہ كر دے، عدل كيا كرو جو پرہيزگار كے زيادہ نزديك ہے المآئدۃ ( 8 ).
اور وہ مخلوق پر رحم كرتے ہوئے ان كے ليے خير و بھلائى اور ہدايت و علم چاہتے ہيں، نہ كہ ان كے ليے كوئى شر و برائى …، اس ليے اہل علم و سنت اپنے مخالف كو كافر نہيں كہتے اگرچہ ان كا مخالف انہيں كافر بھى كہتا ہو؛ كيونكہ كفر ايك شرعى حكم ہے ” انتہى
ديكھيں: الرد على البكرى ( 256 – 258 ).
سوم:
اگر آپ كے پا ساسے مطمئن كرنے كے ليے علم و دلائل نہيں اور اس كے شبہات كا جواب نہيں ہے تو پھر اس تك حق پہنچانے كے ليے مفيد كتب اور كيسٹ وغيرہ استعمال كريں، يا پھر اپنے علاقے يا دوسرے علاقوں كے علماء سے رابط كر كے اور ان كے پاس جا كر ان سے سوال كريں اور اس كے شبہات كا ازالہ كريں، الحمد للہ آج كل تو سب لوگوں كے خير و بھلائى كے وسائل ميسر ہيں، آپ ان اشياء ميں سے كسى كو حقير مت سمجھيں ہو سكتا ہے آپ كى جانب سے دى گئى كوئى كيسٹ ہى اس كى ہدايت كا باعث بن جائے.
چہارم:
آپ اس كى ہدايت و صحيح راہ پر آنے سے نااميد مت ہوں اسے دعوت ديتے رہيں، چاہے مدت كتنى بھى طويل ہو جائے، كئى ايسے ہيں جنہوں كئى دعوت و نصيحت كے كئى برس بعد توبہ كى اور صراط مستقيم پر آ گئے اور حق قبول كر ليا.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات