اول:
ہمارے پاس جو سوالات آتے ہيں ان كا جوابات دينے ميں ہمارى عادت ہے كہ اگر اس سوال ميں كوئى شرعى غلطى ہو تو ہم اس غلطى پر ضرور تنبيہ كرتے ہيں ان بعض غلطيوں كا تعلق تو سوال كے ساتھ ہو سكتا ہے، ليكن كچھ كا اس سے تعلق نہيں ہوتا تو بھى ہم سائل كے ليے صحيح چيز بيان كرتے ہيں تا كہ خير خواہى ہو سكے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے ہم پر واجب كى ہے.
دوم:
آپ كے سوال ميں ہم نے جو شرعى مخالفات پائى ہيں چاہے ان كا تعلق آپ سے ہے يا خاوند كے ساتھ وہ درج ذيل ہيں:
1 – عورت كا محرم كے بغير سفر كرنا:
سوال كرنے والى بہن كے درج ذيل قول سے ہم كو يہ سمجھ آئى ہے كہ:
” اب ميں ايك بستى ميں ملازمت كرتى ہوں جو ميرے شہر سے ڈيڑھ سو كلو ميٹر يعنى ڈيڑھ گھنٹے كى مسافت پر ہے ڈيڑھ گھنٹہ جانے اور ڈيڑھ گھنٹہ آنے ميں لگتا ہے ”
اگر واقعتا ايسا ہى ہے اور اس بہن كے ساتھ اس كا كوئى محرم نہيں ہوتا تو اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اللہ سبحانہ و تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھنے والى عورت كے ليے محرم كے بغير سفر كرنا حلال نہيں ”
جيسا كہ كچھ علماء كى رائے ہے كہ سفركے ليے عورتوں كا گروپ كافى ہے يعنى ان كا محرم ساتھ نہ ہو تو اكٹھى عورتيں مل كر سفر كر سكتى ہيں، يہ رائے صحيح نہيں اور عورت اس طرح سفر نہيں كر سكتى، بلكہ ہر عورت كو اپنے محرم كے ساتھ سفر كرنا چاہيے.
اس مسئلہ كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 3098 ) اور (45917 ) اور (4523 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
2 – اجنبى مرد كے ساتھ انٹرنيٹ كے ذريعہ خط و كتابت كرنا:
آپ نےايك ايسے مرد كے ساتھ خط و كتابت كى جو آپكے ليے اجنبى تھا، اگرچہ بعد ميں اس اجنبى مرد نے آپ كا رشتہ بھى طلب كيا ہے، ليكن ہزاروں افراد اور مرد ايسے ہيں جو ايسا نہيں كرتے بلكہ وہ عورت كو اپنے پھندے ميں پھنسا كر اسے رسوا كرتے ہيں.
اور پھر يہى نہيں بلكہ اس طريقہ پر قائم ازدواجى تعلقات ميں شك و شبہ اور تہمت وغيرہ ضرور رہتى ہے جس كے نتيجہ ميں شادى كامياب نہيں ہوتى.
مرد و عورت كے مابين خط و كتابت كى حرمت ہم سوال نمبر ( 26890 ) اور (10221 ) كے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں آپ اس كا ضرور مطالعہ كريں.
3 – فائدہ پر قرض كے نام سے سودى قرض حاصل كرنا جس كو نام تبديل كر كے حلال كرنےكى كوشش كى گئى ہے.
آپ نے اس كا ذكركرتے ہوئے كہا ہے كہ:
” ميرا منگيتر عنقريب ايك بنك سے فائدہ پر قرض حاصل كر رہا ہے تا كہ ہمارى شادى كى رسومات مكمل ہو سكيں ”
اس لين دين كو لوگوں نے ” قرض ” كا نام دے ركھا ہے جو حقيقت كے اعتبار سے ہے، اگرچہ بنكوں نے حيلہ كرتے ہوئے اسے نفع كا نام ديا ہے حالانكہ اس كى حقيقت تو سودى فائدہ كے ساتھ قرض حاصل كرنا ہى ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 36408 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.
4 – منگنى كے عرصہ ميں ايك دوسرے سے بات چيت كرنا:
آپ نے اپنے سوال ميں يہ كہا ہے كہ:
” ميرى منگنى كے كچھ عرصہ بعد ہم ٹيلى فون كے ذريعہ بات چيت كرنا شروع كر دى تھى ( مجھے علم ہے ہم نے اس ميں غلطى كى خاص كر عقد نكاح سے قبل ہى بات چيت شروع كر دى ) ”
اس ليے منگيتر كے ساتھ خلوت كرنے يا اس كے ساتھ جانے يا اس ميں اور وسعت كرتے ہوئے اختلاط كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور بات چيت سے گريز كيا جائے خاص كر ٹيلى فون كے ذريعہ جبكہ پاس كوئى نگرانى كرنے والا يا پھر كوئى محرم نہ ہو، كيونكہ اس كے بہت غلط نتائج نكل سكتے ہيں ”
منگيتر كے ساتھ تعلقات كى حدود جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 7757 ) اور (2572 ) اور (20069 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
5 – شادى ميں شرط ركھنا:
آپ نے كہا ہے كہ:
” كيا يہ بات معقول ہے كہ قبيلوں اور اشراف قسم كے لوگوں كى بيٹيوں كى مشكل شروط اور مطالبات نہيں ہوتے ؟”
جواب يہ ہے كہ: جى ہاں يہ معقول ہے: خاوند پر سخت شرطيں لگانا جس كى بنا پر ازدواجى زندگى ميں عقدے پيدا ہوں، اور ہو سكتا ہے ان شروط ميں ايسا كام ہو جس كى خاوند كو استطاعت و طاقت ہى نہ ہو، جس كى بنا پر خاوند كى نفسيات اور بيوى اور سسرال والوں كے ساتھ تعلقات ميں سلبى اثرات مراتب ہونگے.
پھر خاوند سے يہ مشكل قسم كى شروط اور مطالبات كرنا كوئى عقلمندى نہيں، اور نہ ہى اس ميں شرف و مرتبہ ہے ديكھيں فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا سارے جہان كى عورتوں كى سردار اور سيد المرسلين محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى لخت جگر ہيں، ليكن انہوں نے اپنى شادى ميں كوئى سخت شرط نہيں لگائى، اور نہ ہى كوئى زيادہ مطالبات كيے.
اور اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى دوسرى بيٹيوں اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كى بيٹيوں كے متعلق كہا جا سكتا ہے كہ انہوں نے بھى كوئى ايسى شرط نہيں لگائى حالانكہ يہ سب مقام و مرتبہ اور حسب و نسب اور شرف و عقل اور دين والى تھيں.
على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كو شادى كے ليے ايك چادر اور ايك مشكيزہ اور ايك چمڑے كا تكيہ جس ميں اذخر گھاس بھرى ہوئى تھى تيار كيا اور يہ اشياء ديں ”
مسند احمد حديث نمبر ( 644 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3384 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
سنت مطہرہ ميں تو وہ كچھ وارد ہے جو آپ كے گمان كے خلاف ہے يعنى منگنى ميں آسانى اورعقد نكاح اور شادى كے اخراجات ميں كمى ہونى چاہيے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” عورت كى خير و بركت اور سعادت ميں يہ چيز شامل ہے كہ اس سے منگنى آسان ہو اور اس كا مہر كم ہو ”
مسند احمد حديث نمبر ( 23957 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2235 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
6 – بيوى كا اپنے خاوند كى خدمت بجا لانا:
آپ كا يہ كہنا كہ:
” ہمارے معاشرے ميں مرد يہ بھول چكے ہيں كہ اسلام ميں گھر كے كام كاج كى ذمہ دارى خاوند كى ہے، وہ آزاد ہے چاہے خود كرے يا پھر ملازمين سےكرائے، اور اگر بيوى كرتى ہے تو يہ اس كى جانب سے احسان و كرم ہے ! ”
اگرچہ جمہور اور اكثر كا قول يہى ہے ليكن يہ ضعيف اور مرجوح قول ہے صحيح نہيں كہ عورت گھركےكام كاج كرتى ہے تو يہ اس كا احسان اور كرم و فضل ہوگا، بلكہ گھريلو كام كاج تو عورت پر واجب ہيں اس ميں كسى بھى قسم كا كوئى شك نہيں، بلكہ يہ ہے كہ عورت اپنى استطاعت اور قدرت كے مطابق گھريلو كام كاج كريگى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عورت پر اپنے خاوند كى خاوند اچھے طريقہ سے بجا لانا واجب ہے، اور يہ حالات كےمطابق مختلف ہوگى، لہذا ديہاتى عورت كى خدمت شہرى عورت كى طرح نہيں، اورطاقتور عورت كى خدمت كمزور عورت جيسى نہيں ”
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 4 / 561 ).
اور شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميں نے ايك اخبار ميں كسى عالم دين كا فتوى پڑھا ہے جس ميں بيان كيا گيا ہے كہ:
بيوى پر اپنے خاوند كى خدمت كرنا اصلا واجب نہيں بلكہ خاوند نے تو اس سے عقد نكاح صرف استمتاع كے ليے كيا ہے، رہا يہ كہ عورت اپنے خاوند كى خدمت كرے تو يہ حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے.
اس فتوى ميں كہا گيا ہے كہ: اگر كسى بھى سبب كے باعث بيوى اپنے خاوند كى خدمت نہيں كرتى يا اپنا كام كاج نہيں كرتى تو خاوند كے ذمہ ملازم اور خادم لانا واجب ہے.
كيا يہ بات صحيح ہے يا غلط، الحمد للہ يہ اخبار اتنا مشہور نہيں كہ ہر كوئى يا پھر اكثر لوگ اسے خريدتے اور مطالعہ كرتے ہوں، وگرنہ اگر عورتوں نے يہ فتوى پڑھ ليا تو كچھ خاوند كنوارے اور بغير بيوى كے ہو جائيں گے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” يہ فتوى صحيح نہيں، اور نہ ہى اس پر عمل ہے؛ كيونكہ صحابيات اپنے خاوندوں كى خدمت كيا كرتى تھيں جيسا كہ اسماء بنت ابو بكر رضى اللہ تعالى بيان كرتى ہيں كہ وہ اپنے خاوند زبير بن عوام رضى اللہ تعالى عنہا كى خدمت كيا كرتى تھيں، اور اسى طرح فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہ بھى اپنے خاوند على رضى اللہ تعالى عنہا كى خدمت كرتيں، اور اسى طرح باقى صحابيات بھى.
اور آج تك مسلمانوں كا عرف يہى ہے كہ بيوى اپنے خاوند كى خدمت كرتى ہے، يعنى كھانا پكانا اور اسكا لباس وغيرہ دھونا اور برتن صاف كرنا اور گھروں كى صفائى وغيرہ كرنا.
اور اسى طرح جانوروں كو پانى پلانا اور ان كا دودھ دھونا اور كھيتى باڑى وغيرہ ميں شريك ہونا ہر وہ كام جو عورت كے مناسب ہے كرنا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے آج تك اس عرف پر ہى عمل چل رہا ہے اور اس كا كوئى انكار نہيں كرتا.
ليكن بيوى كو ايسا كام كرنے كا نہيں كہنا چاہيے جس ميں بہت زيادہ مشقت و صعوبت پائى جائے، بلكہ اس سے وہى كام كرائيں جائيں جو عادت اور طاقت كے مطابق ہوں ”
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 662 – 663 ).
مزيد آپ سوال نمبر (12539 ) اور (10680 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
7 – ڈرامے اور فلميں ديكھنا:
آپ كا كہنا كہ: ” ميں ڈرامے اور فلميں ديكھنا حرام نہيں سمجھتى ”
بلاشك و شبہ آپ كى يہ بات غلط ہے؛ كيونكہ فلموں اور ڈراموں ميں بہت سارى خرابياں اور غير شرعى امور پائے جاتے ہيں مثلا بےپرد اور غلط قسم كى عورتوں كا ٹى وي سكرين پر آنا، اور محبت و عشق كے قصے، اور شراب نوشى اور مرد و عورت كے حرام تعلقات، اور جرائم كى نشر و اشاعت اور اخلاق كريمہ اور اخلاق حسنہ كے خلاف باتيں وغيرہ.
ڈرامے اور فلموں كى حرمت كے متعلق تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 13956 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
8 – آپ يہ كہنا كہ: ” ميرا منگيتر چاہتا ہے كہ ميں گانے سننے اور فلميں اور ڈرامے ديكھنا چھوڑ دوں، اور پينٹ زيب تن نہ كيا كروں اور سر پر ركھا جانے والا برقع پہنا كروں ”
رہا مسئلہ گانے اور موسيقى سننے كا تو اس كى حرمت كے دلائل آپ سوال نمبر ( 43736 ) اور ( 5000 ) اور (5011 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتى ہيں.
اور يہ نئے فيشن كا كندھوں پر ركھا جانے والا برقع پہننے كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر (8555 ) كے جواب كا مطالعہ كر سكتى ہيں، اور فلموں اور ڈراموں كے بارہ ميں ابھى اوپر كى سطور ميں بيان ہو چكا ہے آپ ان سوالات كے جوابات ضرور ديكھيں.
سوم:
انصاف كى بات يہى ہے كہ آپ كے سوال ميں ان اشياء كا ذكر ہوا جو آپ كے منگيتر كو اچھى نہيں لگيں ليكن آپ كے ليے وہ جائز ہيں، وہ يہ كہ آپ كے والد كا آپ كے منگيتر كے سامنے يہ شرط ركھنا كہ وہ آپ كے ليے خادمہ اور نوكرانى كا انتظام كريگا.
جيسا كہ آپ نے سوال ميں كہا ہے كہ : ” ميرے والد كى اس شرط پر پورى قوت كے ساتھ اعتراض كر رہا ہے كہ عقد نكاح ميں يہ شرط ركھى جائيگى كہ وہ خادمہ اور نوكرانى كا انتظام كريگا ”
ليكن گھر ميں خادمہ اور نوكرانى كى موجودگى ميں كے احكام ہيں اور اسى طرح كچھ خرابياں بھى پائى جاتى ہيں انہيں معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22980 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چہارم:
كچھ اشياء ايسى بھى ہيں جو منگيتر چاہتا ہے اور وہ صحيح ہيں آپ كے ليے ان ميں سے كسى كا بھى انكار كرنا صحيح نہيں وہ درج ذيل ہيں:
1 – آپ كا يہ كہنا كہ:
” وہ چاہتا ہے كہ ميں اس كے اور اس كى اولاد كے ليے مكمل طور پر فارغ ہو جاؤں، اور اپنى زندگى ان كے ليے وقف كر دوں اور اس كے ليے اپنى ملازمت اور اپنے آپ كو بالكل بھول جاؤں، اور تعليم مكمل كرنے يا پھر اپنى ملازم ت بہتر بنانے يا جارى ركھنے يا كوئى اور كام كرنے سے سارے خواب بالكل ختم كر دوں، اور اسى طرح جم جانے كا بھى خيال دل سے نكال دوں ”
اس سلسلہ ميں ہم آپ سے يہى عرض كريں گے كہ عورت كا اپنے گھر اور اولاد اور خاوند كے ليے اپنے آپ كو فارغ كر لينا ہى سب سے عظيم كام ہے، يہ ايسا عمل ہے جو عظيم الشان ہونے كے ساتھ ساتھ مدت كے اعتبار سے بھى عظيم ہے حتى كہ مادى طور پر خرچ كرنے سے بھى جو كہ اس كا خاوند گھر سے باہر رہ كر پورا كرتا ہے.
اس وقت يورپ ميں بھى عورتيں يہ آواز بلند كر رہى ہيں كہ عورت اپنے اسى كام كى طرف واپس پلٹ آئے جو اسے بہتر بناتا ہے اور اس كى عزت و تكريم اور مروت كا باعث ہے اور وہ گھر كا كام كاج ہے كہ وہ گھريلو عورت بن كر رہے، جس كے ليے تو دن اور رات بھى كافى نہيں، اور اگر وہ مستقل طور پر ملازمت كرتى ہو اور گھر سے باہر كئى كئى گھنٹے ملازمت ميں بسر كرے تو يہ كام كيسے ہوگا اس طرح وہ كوتاہى كا مرتكب ہوگى؟!
2 – آپ كا يہ كہنا كہ:
” وہ چاہتا ہے كہ ميں گانے اور موسيقى چھوڑ دوں، اور فلموں اور ڈراموں كا مشاہدہ ختم كردوں، اور پينٹ شرٹ نہ پہنوں اور سر پر ركھا جانے والا برقع زيب تن كروں ”
ان امور كے بارہ ميں ہم پہلے تنبيہ كر چكے ہيں.
3 – آپ كا يہ كہنا كہ:
” اس كى رائے يہ ہے كہ ميں اپنے گھر والوں كے ساتھ جہاں بھى تفريح كے ليے جاتى ہوں ( بازار اور ساحل سمندر اور تفريحى پارك وغيرہ ) جہاں مرد و زن كا اختلاط ہوتا ہے وہاں وہ مجھے نہيں لے جا سكتا ”
اس سلسلہ ميں ہم يہى عرض كريں گے كہ اس مسئلہ ميں سچا ہے كيونكہ يہ جگہيں تو مرد و زن كے اختلاط سے اٹى ہوتى ہيں، ليكن بعض اماكن ميں اس كے ليے اختلاط سے بچنا ممكن ہے، اس ليے وہ جانے كے ليے ان ميں سے مناسب جگہوں اور وقت كا انتخاب كر سكتا ہے.
يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا آپ كو ان جگہوں پر نہ لے جانے كى وجہ اس كى آپ پر غيرت ہے، اور يہ چيز قابل تعريف ہے كہ آپ كے خاوند ميں آپ كے ليے غيرت پائى جاتى ہے، اور پھر يہ غيرت برى نہيں كہ اس ميں كوئى شك و ريب پايا جائے بلكہ يہ تو قابل تعريف ہے جس كے وجود كى بنا پر آپ كو اسے داد دينى چاہيے، بلكہ آپ اسے اور زيادہ كرنے كا باعث بنيں، اور اس سلسلہ ميں آپ ان جگہوں ميں سے مناسب جگہيں اور مناسب وقت اختيار كرنے كا مطالبہ كرنے ميں نرم رويہ اختيار كر سكتى ہيں تا كہ وہ اس پر رضامند ہو جائے.
مزيد آپ سوال نمبر (8901 ) كے جواب كا مطالعہ كريں كيونكہ اس ميں ايسے تفريحى مقامات جہاں غلط امور پائے جاتے ہوں ميں جانے كے متعلق مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كا فتوى بيان ہوا ہے.
پنجم:
آخر ميں ہم يہ عرض كريں گے كہ ازدواجى زندگى بہت اچھى اور شاندار ہوتى ہے، اور يہ ايك دوسرے كے ساتھ افہام و تفہيم اور سمجھوتہ پر مبنى ہوتى ہے، اس كے استقلال اور دائمى ہونے كى بنا پر اللہ تعالى اس ميں خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت اور پيار پيدا كرتا ہے.
اور اگر عورت ديكھے كہ اس كے ليے آنے والے رشتہ ميں اور اس كى سوچ اور افكار ميں فرق ہے اور سمجھوتہ نہيں تو پھر بہتر يہى ہے كہ اس كے ساتھ شادى سے اجتناب كرے، اور خاص كر جب رخصتى سے قبل ہى آپس ميں اختلافات پيدا ہو جائيں، يا پھر رخصتى سے قبل ہى ايك دوسرے كے نظريات اور سوچ افہام و تفہيم ميں فرق پيدا ہو جائے يا كوئى ايك دوسرے سے مستغنى ہو جائے تو اس صورت ميں ہم يہى كہيں گے كہ وہ يہ شادى مت كرے، كيونكہ اس ميں بہت سارى خرابياں ہونگى.
ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنى اصلاح كريں، اور جن حرام امور پر ہم آپ كو تنبيہ كر چكے ہيں آپ ان افعال كو ترك كر ديں ـ ان امور كا اس شادى كے ساتھ كوئى تعلق نہيں، چاہے آپ يہ شادى نہ بھى كريں يہ امور پھر بھى حرام ہيں ـ ان امور كو ترك كرنے كے بعد آپ كے ليے اپنے منگيتر سے سمجھوتہ كرنا آسان ہوگا اور آپ ان امور ميں آسانى سے اپنے منگيتر كو رضامند كر سكيں گے جو شرعى طور پر آپ كے ليے حلال ہيں.
اس ليے اگر وہ اس سمجھوتہ پر راضى ہوگيا اور اس كا شرح صدر ہوگيا تو وہ آپ كى سارى مشكلات آسان كر ديگا تو اس طرح يہ شادى دونوں كے ليے بہتر ہوگى، اور اگر آپ ان امور كو اپنانے پر رضامند رہيں جن پر ہم تنبيہ كر چكے ہيں جو آپ كے ليے شرعا حلال نہيں تو پھر ہم آپ كے منگيتر كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ آپ سے شادى مت كرے، بلكہ اسے يہ حق ہے صرف حق ہى نہيں اس كے ليے واجب ہے كہ وہ يہ شادى مت كرے.
آپ كو علم ہونا چاہيے كہ سعادت و خوشبختى اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ہے، اور جو شخص اللہ تعالى كى اطاعت كرتا ہے اللہ تعالى اسى كو شرح صدر عطا كرتا ہے، اور پھر جب اللہ سبحانہ و تعالى كسى مطيع شخص كو مبارك شادى اور اچھا خاندان عطا كرتا ہے تو وہ جنت خلد سے قبل اس دنيا ميں ہى جنت ميں داخل ہو جاتا ہے اس ليے آپ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى حرص ركھيں، اور ايسا خاوند تلاش كرنے كى سعى و كوشش كريں جو اللہ سبحانہ و تعالى كى حدود كا خيال كرنےوالا ہو، كيونكہ اللہ كى رضا و خوشنودى تلاش كرنا ہى آپ كے ليے دنيا ميں خير و بھلائى ہے.
مزيد اہميت كے ليے آپ سوال نمبر (22397 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
واللہ اعلم .