قرآن مجيد كى نص كے مطابق جب خاوند ہى بيوى كا كفيل ہے اور وہ اس كا محافظ بھى ہے اور اسے بيوى پر حكمرانى اور نگرانى كا حق حاصل ہے جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى ميں ہے:
مرد عورتوں پر نگران اور حاكم ہيں اس ليے كہ اللہ تعالى نے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ انہوں نے اپنا مال خرچ كيا ہے النساء ( 34 ).
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ خاوند پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ شرعى احكام كى پابندى كرے، ليكن يہ كيسے ہو سكتا ہے جب ايك شخص عيسائى عورت سے شادى شدہ ہو يا يہودى عورت سے نكاح كر ركھا ہو تو پھر وہ روز قيامت انہيں آگ سے كيسے بچا سكےگا ؟
اس ليے كہ غير مسلم يعنى عيسائى اور يہودى بيوى نہ تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان ركھتى ہے، اور نہ ہى وہ قرآن مجيد كو مانتى ہے، اور يہى دو چيزيں جہنم كى آگ سے بچانے والى ہيں، تو پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے غير مسلم عفيفہ عورتوں سے شادى كرنا كس طرح مباح كر ديا ؟
ميرى رائے تو يہ ہے كہ مسلمانوں كو صرف مسلمان عورتوں سے ہى شادى كرنى چاہيے، كيا يہ صحيح نہيں ؟
برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں معلومات مہيا كر كے عند اللہ ماجور ہوں.
ايك مسلمان عورت كہتى ہے كہ خاوند كے نگران ہونے اور بيوى كو آگ سے بچانے اور پھر اہل كتاب كى عورت سے شادى كرنے ميں تعارض پايا جاتا ہے
سوال: 164144
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسى مسلمان شخص كا اہل كتاب كى عفت و عصمت كى مالك عورت سے نكاح كرنا اصلا حلال ہے، اور مسلمان كے ليے اس نكاح كى حلت اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں بيان كى ہے، قديم اور جديد سب علماء كرام كا مسلك بھى يہى ہے.
ليكن اس نكاح كى اباحت كے ليے كچھ شروط و قواعد ہيں:
اہل كتاب كى وہ عورت اپنے دين پر بالفعل ايمان ركھتى ہو.
اور عفت و عصمت كى مالك اور پاكباز عورت ہو.
اس عورت پر نگران اور اس كى اولاد پر مسلمان خاوند كو ولايت اور نگرانى حاصل ہوگى، يہ نہيں كہ اس عورت كے ملكى قانون كو يا اس كے دين كو حاصل ہو.
اگر ان ميں سے كوئى ايك شرط بھى مفقود ہو اہل كتاب كى عورت سے نكاح كرنا حرام ہوگا.
اگر فرض كر ليا جائے كہ اہل كتاب كى عورت سے نكاح كا وجود صحيح ہو تو اس نكاح ميں كئى ايك خرابياں پائى جاتى ہيں: سب سے بڑى خرابى يہ ہے كہ اس بيوى كى اپنى اولاد پر تاثير ہوگى اور مسلمان خاوند كى رغبت كے خلاف تربيت كرتے ہوئے شريعت مطہرہ كے خلاف تربيت كريگى.
ليكن يہ خرابياں حلال كو حرام نہيں كر سكتيں بلكہ ان خرابيوں كا پايا جانے اہل كتاب كى عورتوں سے شادى كرنے سے دور رہنے كى رغبت و ترغيب دلاتى ہيں، اور جب شريعت اسلاميہ نے خاص كر مسلمان عورتوں ميں سے بہتر اور اچھى عورت اختيار كرنے پر ابھارا ہے كہ حسن خلق اور دين والى عورت اختيار كى جائے تو پھر بالاولى مسلمان شخص كو يہودى اور عيسائى عورت سے نكاح كرنے سے دور رہنا چاہيے، ليكن ان سے نكاح كرنا حرام نہيں ہوگا، جب شروط پائى جائيں تو نكاح كرنا حلال ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نص قرآنى سے اہل كتاب كى عورتوں كے ساتھ نكاح كرنا جائز ہے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان لوگوں كى پاكباز عورتيں جنہيں تم سے پہلے كتاب دى گئى ہے .
يہاں محصنات سے عفت و عصمت ركھنے والى پاكباز عورتيں مراد ہيں…
عبد اللہ بن احمد بيان كرتے ہيں كہ: ميں نے اپنے والد امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا كہ:
" كيا مسلمان شخص كسى نصرانى يا يہودى عورت سے شادى كر سكتا ہے ؟
انہوں نے جواب ديا:
ميں ايسا كرنا پسند نہيں كرتا، اور اگر ايسا كر لے تو بعض صحابہ كرام نے بھى ايسا كيا تھا " انتہى
ديكھيں: احكام اھل الذمۃ ( 2 / 794 – 795 ).
مسلمان شخص كا اہل كتاب سے تعلق ركھنے والى بيوى كو بچانا يہ ہے كہ وہ اسے صراحتا دعوت اسلام دے، اور اس كے ساتھ معاملات ميں حسن اخلاق اور حسن سلوك كا مظاہر كرے تا كہ اسے دين اسلام ميں داخل ہونے كى رغبت دلائى جا سكے، لگتا ہے كہ اہل كتاب كى عورت سے شادى كرنے كى حكمت بھى يہى ہے.
اس ليے كسى مسلمان عورت كے ليے غير مسلم مرد سے شادى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ خاوند كا اپنى بيوى پر اثرانداز ہونا معروف ہے، عادتا اور غالب طور پر خاوند ہى اپنى بيوى پر اثر كرتا ہے نہ كہ اس كے برعكس.
ہم بھى آپ كى رائے سے اتفاق كرتے ہيں كہ مسلمان شخص كو مسلمان عورت سے شادى كرنے پر ہى اكتفا كرنا چاہيے، ليكن ہمارى يہ رائے صرف مسلمان كو بطور نصيحت ہے، ليكن اختيار اسے ہى حاصل ہے، جو شخص اس نصيحت كو قبول كرنے سے انكار كرتے ہوئے كسى اہل كتاب كى عورت سے شادى كر لے تو ہم اس پر اسے حرام نہيں كر سكتے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے ليے يہ حلال كيا ہے.
ہم تو صرف اسے نصيحت ہى كر سكتے ہيں، اور اس كے دين اور گھر اور اولاد كے ليے اسے صحيح كام كرنے كى ترغيب ہى دلا سكتے ہيں، ليكن بالآخر آخرى فيصلہ تو خود اس شخص كا ہى ہوگا.
كسى كتابى عورت ميں كونسى شروط ہونا ضرورى ہيں جن كى بنا پر اس سے مسلمان شخص نكاح كر سكتا ہے، ہم اس كا تفصيل بيان سوال نمبر ( 95572 ) كے جواب ميں كر چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور كونسى كتابى عورت كے ساتھ مسلمان شخص كا نكاح كرنا جائز ہے اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2527 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
رہا كتابى عورت سے نكاح كرنے كى خرابى اور خطرے تو يہ بہت ہيں، ليكن ہم نے چند ايك سوال نمبر ( 12283 ) اور ( 20227 ) اور ( 44695 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور خاوند كا حكمران اور نگران ہونے كا معنى اور اس كے اسباب كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 930 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات