سوال: میں نے بریلویوں کے دلائل کا مطالعہ کیا ہے، جن کی تردید کیلئے مجھے جلد ہی کوئی نہ کوئی دلیل مل گئی، لیکن ایک روایت کے متعلق مجھے مشکل در پیش ہے، جس کا جواب میرے پاس نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ عن یزید بن ۔۔۔ (میرے لئے والد کا نام واضح نہیں ہو سکا) کی کتاب تاریخ المدینہ المنورہ میں ہے کہ: “انہیں اپنے گھر میں کنویں کی کھدائی کے دوران ایک پتھر کی سِل ملی، جس پر ام المؤمنین [ام] حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نام کندہ تھا، تو انہوں نے مزید کھدائی سے ہاتھ روک لیا، اور انکی قبر پر ایک کمرہ تعمیر کر دیا، راوی کہتے ہیں کہ وہ اس کمرے میں داخل بھی ہوا ہے ، اور قبر کو دیکھا بھی ہے۔
اس روایت کی وجہ سے قبروں پر تعمیراتی کام کو مسنون کہتے ہیں، اور مجھے اس کا جواب دیتے ہوئے کسی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس روایت کے موضوع ہونے کے بارے میں مکمل تفصیل اور وضاحت کر دیں، کہ اسے موضوع کیوں کہا گیا ہے۔
قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر تعمیرات کرنے کے بارے میں ایک شبہ اور اسکا رد
سوال: 200633
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سوال نمبر: (150265) میں بریلوی فرقہ کے بارے میں معلومات بیان کی جا چکی ہیں، کہ یہ فرقہ غالی صوفی فرقہ ہے، اور انکی دعوت کے بنیادی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت ، و نیک لوگوں کی شان میں غلو پر مبنی ہیں، یہ لوگ اہل سنت سے دشمنی رکھتے ہیں، اور لوگوں کو جہاد فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں۔
دوم:
اسی طرح سوال نمبر: (130919) اور سوال نمبر: (185266) میں گزر چکا ہے کہ قبروں پر تعمیراتی کام حرام ہے؛ کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ ہے، اور ایسے ہی یہ عمل قبروں کے بارے میں سنت سے ثابت شدہ احکامات میں خود ساختہ اضافہ ہے۔
سوم:
ابو زید عمر بن شبہ نمیری رحمہ اللہ “تاريخ المدينۃ” (1/ 120) میں کہتے ہیں:
“ہمیں محمد بن یحیی نے بیان کیا کہ انہیں عبد العزیز بن عمران نے خبر دی کہ اُنہیں یزید بن سائب نے بتلایا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے دادا نے خبر دی کہ : “جب عقیل بن ابی طالب رحمہ اللہ نے اپنے گھر میں کنواں کھودنے کیلئے کھدائی کی تو انہیں اس دوران ایک پتھر ملا جس پر “ام حبیبہ بنت صخر بن حرب کی قبر” کندہ تھا، تو عقیل نے اس کنویں کو بند کر دیا، اور اس پر ایک کمرہ بنا دیا” یزید بن سائب کہتے ہیں کہ میں اس کمرے میں داخل بھی ہوا ہوں اور اس قبر کو بھی دیکھا ہے۔
اسکی سند انتہائی بوسیدہ ہے، اسکی تفصیل یہ ہے:
عبد العزیز بن عمران: یہ الزهری المدنی الأعرج ہے، جو کہ “ابن ابی ثابت ” کی کنیت سے معروف ہے، اسکا حکم یہ ہے کہ یہ ” متروك الحديث ” ہے، یعنی اسکی احادیث متروک ہیں ۔
-چنانچہ یحیی بن معين رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“ليس بثقة ، إنما كان صاحب شعر ” یہ ثقہ نہیں ہے، یہ تو ایک شاعر تھا۔
اسی طرح انکا کہنا ہے کہ : “كان يشتم الناس ويطعن في أحسابهم ، ليس حديثه بشيء ” یہ لوگوں کو گالیاں بکتا تھا، اور انکے حسب نسب میں کیڑے نکالتا تھا، اسکی احادیث کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
– امام بخاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: “منكر الحديث لا يكتب حديثه ” یہ منکر الحدیث ہے، اسکی احادیث نہ لکھی جائیں۔
-امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : “متروك الحديث ، وقال مرة لا يكتب حديثه ” اسکی احادیث متروک ہیں، اور ایک بار یہ بھی کہا کہ: اسکی احادیث نہ لکھی جائیں۔
-امام ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: “يروي المناكير عن المشاهير ” مشہور راویوں سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔
-امام أبو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ” ضعيف الحديث منكر الحديث جدا “اسکی احادیث سخت ضعیف اور منکر ہیں۔
-امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: “امتنع أبو زرعة من قراءة حديثه وترك الرواية عنه ” امام ابو زرعہ رحمہ اللہ نے اسکی احادیث پڑھنا ہی چھوڑ دی تھیں، اور اس کی روایات آگے بیان نہیں کرتے تھے۔
-امام ترمذی اور دارقطنی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ: یہ راوی ضعیف ہے۔
“تهذيب التهذيب” (6 /312)
بلکہ عمر بن شبہ خود ہی جنہوں نے اسکی یہ روایت پیش کی ہے وہ کہتے ہیں:
“عبد العزیز اپنی احادیث میں بہت زیادہ غلطیاں کرتے تھے؛ کیونکہ انہوں نے اپنی کتابوں کو آگ لگا دی تھی، تو پھر وہ اپنے حافظے سے حدیثیں بیان کرتے تھے” انتہی
“تاريخ المدينۃ” (1/ 123)
چنانچہ جس راوی کی یہ حالت ہو تو مسلمانوں کے عقائد کی مخالفت میں اسکی روایت کو حجت کیسے مانا جا سکتا ہے؟ حالانکہ سلف صالحین نے کبھی بھی قبروں کو پختہ نہیں بنایا، بلکہ اس کام سے منع کرتے آئے ہیں، بقیع میں آپ دیکھ لیں کہ بڑے بڑے صحابہ کرام کی قبریں ہیں، ان پر کسی قسم کی کوئی عمارت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ قبریں پختہ ہیں۔
یقینی بات ہے کہ اس قسم کی روایات کو قابل حجت دو قسم کے لوگ ہی بنا سکتے ہیں:
-یا تو وہ اس علم سے جاہل ہوگا کہ کن روایات کو حجت بنایا جاسکتا ہے، اور کن روایات کو حجت نہیں بنایا جاسکتا۔
– یا پھر خواہش پرست؛ چنانچہ جو اپنی سوچ اور فکر کے موافق ہو اسے بیان کر دیا چاہے جھوٹ ہو یا سچ، اور جو اپنی سوچ اور فکر کے مخالف ہو اسے ردّ کر دیا چاہے صحیح بخاری و مسلم ہی میں کیوں نہ ہو۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (26312) اور (146400) کی طرف رجوع کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات