میرے والد صاحب ستر کی دہائی میں تعلیمی ٹریننگ کورس کیلئے ایک مغربی ملک میں گئے تھے، انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اسلامی ممالک میں رمضان شروع ہوچکا ہے، کیونکہ اس وقت آج کل کی طرح رابطے کیلئے جدید وسائل موجود نہیں تھے، مہینوں بعد گھر والوں کی طرف سے عید کی مبارک باد سے متعلق ٹیلی گرام ملا کرتا تھا، اس سے پتہ چلتا کہ رمضان گزر چکا ہے، یاد رہے کہ انکا قیام شہر سے دور ایک فیکٹری میں تھا، اور کام کا بہت دباؤ رہتا تھا، اس لئے انہوں نے دو سال روزے نہیں رکھے۔
اور اب وہ اپنے ذمہ روزوں کو نہیں رکھ سکتے، ذہن نشین رہے کہ انہوں نے عمدا روزے نہیں چھوڑے، تو کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟
دو سال رمضان کے روزے نہیں رکھے، اور اب وہ قضا دینے سے عاجز ہے، تو کیا کرے؟
سوال: 202163
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جس شخص کو مہینوں کے بارے میں علم نہ ہو تو رمضان کے روزے اسے معاف نہیں ہونگے، اور اس کیلئے ماہِ رمضان کے بارے میں جاننے کیلئے تگ و دو اور کوشش لازمی ہوگی۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (10/ 192) میں ہے کہ:
"جو شخص قید میں تھا، یا شہر سے دور کسی علاقے میں تھا، یا دار حرب میں ہونے کی وجہ سے وہ مہینے کے بارے میں معلومات نہیں لے سکا، اور ماہ رمضان کا اسے علم نہیں ہوا، تو تمام فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اس پر ماہ رمضان کے بارے میں جاننے کیلئے تگ ودو اور کوشش کرنا ضروری تھا ، کیونکہ تلاش و جد و جہد کیساتھ فرض کی ادائیگی ممکن ہوتی ہے، اس لئے استقبال قبلہ کی طرح اس پر یہ بھی لازم ہوگا[جس طرح نماز کیلئے قبلہ کی سمت تلاش کرنا ضروری ہے اسی طرح ماہِ رمضان تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔ مترجم]" انتہی
اور اگر روزوں کیلئے صحیح وقت تلاش کرنے کی بھر پور کوشش کی تو اسکی عبادت صحیح اور فرض کی ادائیگی ہوجائے گی، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
ترجمہ: (اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں ٹھہراتا) البقرہ/ 286
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: ترجمہ: (اللہ تعالی کسی جان کو اسی کا مکلف بناتا ہے جو اس نے عطا کیا ہے) الطلاق/7
آپ سوال نمبر : (81421) کا بھی مطالعہ کریں۔
چنانچہ آپکے والد کیلئے ضروری تھا کہ وہ ماہِ رمضان کی تلاش میں رہتے، اور اپنی کوشش و اجتہاد کے مطابق روزے رکھ لیتے، اور اگر کسی سے پوچھنے کا موقع ملتا تو لازمی کسی پوچھتے۔
جیسے ہی انہیں علم ہوتا کہ رمضان شروع ہوچکا ہے، یا گزر چکا ہے، ان پر روزہ رکھنا واجب ہوگیا تھا، اگر ابھی رمضان کے دن باقی تھے تو وقت پر ادا ہوجاتے، یا رمضان کے گزرنے پر قضائی شروع ہوجاتی۔
لیکن دو سال بغیر روزے رکھے ہی گزار دینا، اور اسکی وجہ یہ بیان کرنا کہ اسے رمضان کے شروع ہونے کا پتا نہیں چلا، یا اسے علم ہی نہیں ہوا، تو یہ جائز نہیں ہے۔
دوم:
گذشتہ دو رمضان میں روزے نہ رکھنے کی وجہ سے آپکے والد پر دو ماہ کے روزے لازم ہیں، ساتھ میں توبہ ، استغفار، خصوصی طور پر نفلی روزے اور کثرت کیساتھ نیک اعمال بھی کرنے ہیں۔
بلکہ جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ : ان پر روزوں کی قضا کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں۔
چنا نچہ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جس شخص نے ایک رمضان کے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک مؤخر کی تو اس پر کیا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: اگر تاخیر کسی عذر کی بنا پر تھی مثلاً گیارہ ماہ تک وہ شخص بستر پر مرض کی حالت میں رہا، اور اس مدت میں قضا کی استطاعت نہ ملی تو ایسی صورت میں اس پر صرف قضا ہی ہے، اور اگر تاخیر سستی و کاہلی کی وجہ سے تھی، اور وہ شخص قضا دینے کی طاقت بھی رکھتا تھا، تو اس پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کا کھانا ہوگا، جو سستی کا کفارہ ہوگا"انتہی ماخوذ از: "فتاوى الصيام"
مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (26865) کا بھی مطالعہ کریں۔
سوم:
جو شخص بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزوں کی قضا نہیں دے سکا، تو اس پر توبہ کیساتھ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے، اور جمہور علمائے کرام کے موقف پر قیاس کرتے ہوئے : اس پر ایک کھانا اور بھی واجب ہوگا، اور وہ ہے ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کا کھانا، جو کہ قضا کی تاخیر کا کفارہ ہوگا۔
جلال الدین محلی رحمہ اللہ اپنی "منهاج الطالبين" (2/ 88) کی شرح میں کہتے ہیں:
"صحیح ترین موقف کے مطابق ، اگر طاقت کے باوجود روزوں کی قضا میں تاخیر کی، اور پھر وہ فوت ہوگیا، تو اسکے ترکہ میں سے [امام شافعی کے جدید قول کے مطابق]ہر دن کے بدلے میں دو "مُد" نکالے جائیں گے، ایک مدروزوں کی قضا کیلئے، اور ایک مد قضا میں تاخیر کی وجہ سے۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ: ایک مد ہی کافی ہے، جو کہ قضا کے بدلے میں ہوگا، جبکہ تاخیر کی وجہ سے عائد ہونے والا مد ساقط ہوجائے گا"انتہی
چنانچہ اگر ہر دن کے بدلے میں دو مساکین کوکھانا کھلانے کی طاقت ہے تو یہ زیادہ محتاط ہے، اور بری الذمہ ہونے کیلئے زیادہ بہتر ہے، ورنہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے، اور ان پر اس سے زیادہ کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات