بنكوں سے حاصل ہونے والے فوائد كے متعلق اختلافات سامنے آرہے ہيں كہ آيا يہ حلال ہيں يا حرام ؟
تو كيا جب ميں رمضان ميں ادا كيا جانے والا فطرانہ كى مقدار زيادہ ادا كروں جو فوائد كى مقدار سے زائد ہو تو كيا يہ فوائد ميرے ليے حلال ہو جائيں گےاور ميں انہيں صرف كرسكتا ہوں اور كيا وہ پاكيزہ بن جائيں گے ؟
كيا زكاۃ كى مقدار سے زيادہ نكالنے سے سودى فوائد حلال ہو جاتے ہيں ؟
سوال: 45691
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
معروف اور معتبر اہل علم كا سودى فوائد كى حرمت پر اتفاق ہے، اور عالم اسلام ميں اس كى حرمت ميں كئى ايك علمى كميٹيوں كے فيصلے اور فتوى جارى ہو چكے ہيں، ان ميں اسلامى ريسرچ اكيڈمى ازھر كا فيصلہ بھى شامل ہے جو 1965 ميلادى ميں صادر ہوا جس ميں 35 اسلامى ممالك كے مندوب اور نمائندے شامل ہوئے اس قرار ميں ہے كہ:
( قرض كى سب قسموں پر فوائد لينا حرام ہيں، اس ميں كوئى فرق نہيں كہ اس كا نام قرض استہلاكى ( يعنى كھپت والا قرض ) يا اسے قرض انتاجى كہا جاتا ہو( يعنى پيداوارى قرض ) ہو، كيونكہ كتاب و سنت كى مجموعى نصوص شرعى طور پر دونوں قسموں كى قطعى حرمت پر دلالت كرتى ہيں ). انتہى
اور تنظيم موتمر اسلامى كے ذيلى ادارے اسلامى فقہ اكيڈمى ( مجمع فقہ الاسلامى ) كے 1985ميلادى ميں منعقدہ اجلاس ميں يہ فيصلہ ہوا كہ:
( ہر وہ قرض جس كى ادائيگى كا وقت ہو چكا ہو اور مقروض شخص اس كى ادائيگى سے عاجز ہو تو اسے ادائيگى كا وقت دينے اور تاخير پر ليا جانے والا زيادہ يا فائدہ حرام ہے، اور اسى طرح قرض كے معاہدے ميں ابتدائى طور پر ہى ليا جانے زيادہ يا فائدہ بھى حرام ہے، يہ دونوں صورتيں سود اور شرعا حرام ہيں ) انتہى.
اور اسى طرح رابطہ عالم اسلامى كے ذيلى ادارے مجمع فقہ الاسلامى ( اسلامى فقہ اكيڈمى ) كے 1986 ميلادى ميں منعقدہ اجلاس ميں قرار پاس ہوئى جس ميں ہے كہ:
( ہر وہ مال جو سودى فوائد كے ذريعہ آئے وہ شرعا حرام ہے، مسلمان كے ليے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہيں، كہ وہ مال اپنے ليے ركھے يا اپنے اہل عيال ميں سے جن كا وہ ذمہ دار ہے كا كوئى بھى كام اس مال سے پورا كرے، بلكہ اس پر واجب ہے كہ وہ يہ مال عام مسلمانوں كى فلاح و بہبود كے ليے استعمال كرے، مثلا مدارس يا ہسپتال وغيرہ ميں، اور يہ صدقہ نہيں ہو گى بلكہ اس كے مال كى پاكيزگى اور طہارت كے طور پر ہے.
اور كسى بھى حالت ميں ان سودى فوائد كو بنك كے ليے نہيں چھوڑنا چاہيے تا كہ وہ اس مال سے اور مالى طاقت حاصل كرے اور اس مال سے بنكوں كا گناہ باہر اور بھى زيادہ ہو، كيونكہ بنك ان اموال كو عادتا يہودى اور عيسائى اداروں اور تنظيموں پر صرف كرتا ہے، لہذا اس طرح مسلمانوں كا مال مسلمانوں كے خلاف لڑائى اور مسلمانوں كى اولاد كو ان كے عقيدہ سے برگشتہ كرنے ميں استعمال ہونے لگے گا، يہ علم ميں ہونا چاہيے كہ ان سودى بنكوں كے ساتھ فائدہ يا فائدہ كے بغير لين دين كرتے رہنا جائز نہيں ہے ) انتہى.
آپ مزيد تفصيل اور فائدہ اور اہميت كے پيش نظر مندرجہ ذيل سوال نمبروں كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں:
(12823 ) اور (20695 ) اور (292 ) اور (22392 ).
اور اس سے يہ معلوم ہو جاتا ہے كہ ان فوائد كى حرمت كے متعلق جو اختلافات سامنے آرہے ہيں ان كى كوئى حيثيت اور قدر و قيمت نہيں .
اور پھر سودى فائدہ خبيث اور گندا مال ہے، نہ تو اس سے صدقہ نكالا جا سكتا ہے اور نہ ہى زكاۃ، چاہے وہ رمضان المبارك كا صدقہ ہو جسے فطرانہ كہتے ہيں يا پھر اس كےعلاوہ صدقہ و خيرات ہو.
ان فوائد سے حاصل ہونے والے مال كو مسلمانوں كى فلاح و بہبود پر صرف كرنا واجب اور ضرورى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اگر آپ ميں استطاعت ہے تو سودى بنك كے ساتھ لين دين اور كاروبار كرنا بھى ترك كرنا واجب اور ضرورى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات