ہم ( 48 ) فلسطينى لوگ لوگوں كو وزارت فراہمى رہائش سے پچيس برس كے ليے قرض حاصل كر رہے ہيں، جس ميں كچھ رقم تو ہبہ ہے اور باقى رقم فائد ( يعنى سود ) كے ساتھ ماہانہ قسطوں ميں ادا كرينگے، اور اگر قرض لينے والا ادائيگى سے ايك برس ليٹ ہو گيا تو وزارت كو اس كا گھر كسى دوسرے شخص كو فروخت كرنے كا حق حاصل ہوگا.
اور قرض كے معاہدے ميں ايك اور بھى شرط يہ ہے كہ معاہدے پر دستخط كرنے والے مياں اور بيوى ميں سے ايك كى موت كى حالت ميں دوسرے كو ادائيگى معاف كر دى جائيگى، اور وزارت كو قرض واپس كرنے كا مطالبہ كرنے كا حق نہيں رہےگا ـ يہ علم ميں رہے كہ اگر كوئى شخص قرض حاصل كيے بغير گھر تعمير كر لے تو اس سے بہت لمبى چوڑى پوچھ گچھ اور تفتيش ہوتى ہے كہ آپ كے پاس اتنى رقم كہاں سے آئى ـ ؟
گھر خريدنے كے ليے سودى قرض لينا
سوال: 45910
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس ميں كوئى شك و شبہ كى گنجائش نہيں كہ سود يہوديوں ميں ايك واضح اور ظاہر علامت ہے، اور عمومى طور پر حرام مال كھانے كے حيلے ان ميں عام ہيں، اور خاص كر ان ميں سود خورى تو معروف ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے ان كے متعلق اس كا ذكر كيا ہے، اور انہيں اس سے منع كرتے ہوئے ان كے ليے اسے حرام قرار ديا ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
جو پاكيزہ اور نفيس چيزيں ان كے ليے حلال كى گئى تھيں وہ ان يہوديوں كے ظلم كے باعث ان پر ہم نے حرام كرديں، اور اللہ تعالى كى راہ سے اكثر لوگوں كو روكنے كے باعث، اور سود لينے كے باعث حالانكہ انہيں سود لينے سے منع كيا گيا تھا، اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كى وجہ سے اور ان ميں سے جو كفار ہيں ہم نے ان كے ليے المناك عذاب تيار كر ركھا ہے النساء ( 160 – 161 ).
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ وتعالى نے ان ـ يہوديوں ـ كو سود كے لين دين سے منع كيا تھا، تو انہوں نے سود ليا اور سوخورى كى، اور سود لينے ميں كئى قسم كے حيلے اور كئى انواع كے شبہات اختيار كيے، اور لوگوں ما ناحق مال كھايا.
ديكھيں: تفسيرابن كثير ( 1 / 584 ).
اور ان يہوديوں كا آپ لوگوں سے سود لينا، اور اس سود ميں آپ لوگوں كو ڈالنا اور قريب كرنا، اور ادائيگى نہ كر سكنے كى صورت ميں آپ كے گھر اور عمارت پر قبضہ كر لينا ان كے منحرف دين اور ان كے خسيس قسم كے معاملات ميں معروف اورعام ہے، يہوديوں نے سود كى حرمت والى نص كو صرف اپنے اندر ہى مقتصر كر ركھا ہے، اور وہ آپس ميں ايك دوسرے سے سودى لين نہيں كرنا حرام قرار ديتے ہيں، ليكن غير يہودى كے ساتھ وہ سودى لين دين ہى كرتے ہيں، باقى لوگوں كے ساتھ انہوں نے سود كو جائز كر ليا اور اس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے، اور دوسروں كى املاك پر قبضہ كرنے كا انہوں نے يہى طريقہ اپنا ركھا ہے.
ان كا ايك ربى ( يہودى عالم ) راب كہتا ہے:
جب كسى نصرانى اور عيسائى كو دراہم كى ضرورت ہو تو يہودى كو چاہيے كہ وہ اس پر ہر طرف سے قابض ہو جائے، اور فاحش سود پر سود زيادہ كرتا چلا جائے، حتى كہ وہ اس كى ادائيگى سے قاصر ہو كر عاجز آ جائے، اور اسے اس وقت تك پورا نہ كر سكے جب تك اپنى املاك سے بھى ہاتھ نہ دھو بيٹھے، يا پھر سود كے ساتھ مال اتنا بڑھ جائے كہ وہ نصرانى كى املاك كے برابر ہو جائے، اور اس وقت يہودى اپنے مقروض شخص كى املاك پر حكمران كى مدد سے قابض ہو جائےگا.
ديكھيں: الربا و اثرہ على المجتمع الانسانى تاليف ڈاكٹر عمر بن سلمان الاشقر صفحہ نمبر ( 31 ).
دوم:
اسلام ميں سود حرام قرار ديا گيا ہے، اور اس كے حكم ميں مسلمانوں كا آپ ميں سودى لين دين كرنے، يا غير مسلم كے ساتھ مسلمان كا سودى لين دين كرنے ميں كوئى فرق نہيں، اور وہ قرض جس ميں قرض دينے والا يہ شرط ركھے كہ واپس كرتے وقت زيادہ رقم دينا ہوگى، يہ سودى قرض ہے اور اس كے حرام ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اس كا لين دين كرنے والا اپنے آپ كو دنيا و آخرت ميں سزا اور وعيد كا مستحق قرار ديتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جو لوگ سود كھاتے ہيں وہ كھڑے نہيں ہونگے مگر جس طرح وہ شخص كھڑا ہوتا ہے جسے شيطان چھو كر خبطى بنا دے، يہ اس ليے كہ وہ كہتے ہيں خريد و فروخت تو سود كى طرح ہى ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے خريد و فروخت حلال كي ہے، اور سود كو حرام كيا ہے، تو جس كے پاس اس كے رب كى جانب سے نصيحت آگئى تو وہ اس سے باز آ گيا تو اس كے ليے وہى ہے جو گزر چكا ہے، اور اس كا معاملہ اللہ كى طرف ہے، اور جو كوئى ( اس كى طرف ) دوبارہ لوٹا يہى جہنمى ہيں، اور وہ اس ميں ہميشہ رہينگے البقرۃ ( 275 ).
اور حديث ميں ہے سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں آج رات دو آدميوں كو ديكھا وہ ميرے پاس آئے اور مجھے ارض مقدس ( بيت المقدس ) كى جانب لےگئے، تو ہم چلے حتى كہ ايك خون سے بھرى ہوئى نہر كے پاس پہنچے جس ميں ايك شخص كھڑا تھا، اور نہر كے درميان ايك شخص تھا اس كے سامنے پتھر ركھے تھے، جو شخص نہر ميں تھا وہ آيا اور جب نہر سے نكلنا چاہا تو اس شخص نے اسے پتھر مارے اور جہاں وہ تھا اسے وہى واپس بھيج ديا، اور جب بھى وہ باہر نكلتا چاہتا اسے پتھر مارے جاتے اور وہ واپس اپنى جگہ چلا جاتا، ميں نے كہا: يہ كيا ہے ؟ تو اس نے كہا: آپ جسے نہر ميں ديكھا تھا وہ سود خور تھا “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1979 ).
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” سات ہلاك كر دينے والى اشياء سے بچ كر رہو، صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى اشياء ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” شرك كرنا، جادو، اس نفس كو قتل كرنا جسے اللہ تعالى نے ناحق قتل كرنا حرام كيا ہے، سود كھانا، اور يتيم كا مال ہڑپ كرنا، اور لڑائى سے پيٹھ پھير كر بھاگنا، اور غافل اور مومن عورتوں پر بہتان لگانا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2615 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 89 )
اور حكم كے اعتبار سے سود خور ـ جو كہ يہاں بنك ہے ـ اور سود كھلانے والا ـ جو سود پر قرض لينے والا ہے ـ اور گواہى دينا والے اور لكھنے والا سب برابر ہيں ان ميں كوئى فرق نہيں، كيونكہ يہ سب گناہ ميں برابر كے شريك ہيں.
جابر عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے اور اسے لكھنے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت كى، اور فرمايا وہ برابر ہيں ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے سوال كيا گيا:
كيا بنك كے ساتھ لين دين كرنا سود ہے يا كہ جائز ؟
كيونكہ بہت سے شہرى بنك سے قرض حاصل كر رہے ہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” مسلمان شخص كے ليے كسى سے بھى سونا يا چاندى يا نقد رقم اس شرط پر لينى حرام ہے كہ وہ اس سے زيادہ واپس كريگا، چاہے قرض دينے والا بنك ہو يا كوئى اور؛ كيونكہ يہ سود ہے جو كہ كبيرہ گناہوں ميں سے سب سے كبيرہ گنا ہے، اور جو بنك بھى اس طرح كا لين دين كرتا ہے وہ سودى بنك ہے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 412 ).
اس بنا پر آپ كے ليے ان بنكوں سے قرض لينا جائز نہيں، كيونكہ وہ آپ كے ساتھ صريحا حرام كردہ سود كا لين دين كر رہے ہيں، آپ كے ليے اپنى عمارت اپنے حلال مال سے تعمير كرنى ممكن ہے، اور اس مال كو كئى ايك طريقوں سے ثابت كر سكتے ہيں، كيونكہ بنك كے تعاون كے بغير گھر تعمير كرنے والا ہر شخص چور يا ڈاكو نہيں ہو سكتا.
حلال كمائى اور آمدن سے مال حاصل كرنے كے طريقے بہت وسيع اور زيادہ ہيں، اور جو شخص آپ كے معاملے ميں شك كا شكار ہو اسے اس كا ثبوت ديا جا سكتا ہے، اور توثيق كروائى جا سكتى ہے، اور يہ كوئى ايسا معاملہ اور كام نہيں جو طاقت اور قدرت سے باہر ہو.
سود كى حرمت كا بيان، اور اس كے ذريعہ گھروں كى تعمير اور خريد وفروخت كى حرمت كا بيان سوال نمبر (21914 ) اور (22905 ) كے جوابات ميں ہو چكا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات