ہم ايك يورپي ملك ميں سكونت پذير ہيں، ہمارے ايك بھائى كو حكومت كى جانب سے پبلك الاونس كى مد ميں كچھ رقم ملا كرتى تھى، اور اس نے حكومت كے ساتھ كچھ شروط طے كر ركھى تھيں جن ميں سے ايك يہ بھى تھى كہ وہ انہيں اپنى ہر قسم كى بقيہ آمدنى سے مطلع ركھے گا، ليكن اسے كچھ مدت بعد ملازمت حاصل ہوئى اور تنخواہ چار ماہ بعد ملى، تو اس چار ماہ كى مدت ميں اس نے حكومت كو تنخواہ نہ ملنے كى بنا پر بے خبر ركھا، اور پانچويں مہينہ ميں اسے پانچ ماہ كى تنخواہ اكٹھى ملى جو اس نے قرض كى ادائيگى ميں صرف كردى، پھر اس كے بعد اس نے پبلك الاؤنس كے افيسر كو ملازمت كے متعلق بتا ديا اور الاؤنس لينا بند كرديا.
لھذا اس چار ماہ كے حاصل كردہ الاؤنس كا حكم كيا ہو گا؟ كيا وہ حكومت كو واپس كرے – يہ علم ميں ركھيں كہ انہوں نے شرط ركھى تھى كہ وہ انہيں اپنے قرض كے متعلق مطلع كرے ليكن اس نے ايسا نہيں كيا- ايك اور بات يہ بھى ہے كہ اس نے جو سارى رقم لى تھى وہ اس كا مالك نہيں تھا، اور تيسرى بات يہ ہے كہ: اگر وہ اب حكومت كے علم ميں لاتا ہے تو معاملہ پوليس تك پہنچے گا اور اس ميں بہت زيادہ مشكلات پيش آسكتى ہيں اور معاف بھى كيا جاسكتا ہے، اس كيس كے ذمہ دار كى مرضى پر منحصر ہے، يہ علم ميں رہے كہ بھائى اپنے كيے پر نادم ہے، اور خلاصى چاہتا ہے ؟
دھوكہ سے كفار كا مال حاصل كرنے كا حكم
سوال: 50716
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دھوكہ و فراڈ اور خيانت كے ساتھ كفار كا مال حاصل كرنا حرام ہے؛ كيونكہ اسلام ميں خيانت حرام ہے چاہے وہ مسلمان شخص كے ساتھ كى جائے يا پھر كافر كے ساتھ.
مسلمان كو اپنے اور ان ممالك كے مابين كيے گئے معاہدے كا پاس اور احترام كرنا چاہيے، اگرچہ وہ كفريہ ممالك ہى كيوں نہ ہوں، كيونكہ اس كا كفر معاہدے كو توڑنا اور خيانت كرنا حلال نہيں كرتا، اور نہ ہى اس سے باطل طريقہ كے ساتھ مال كھانا حلال ہو جاتا ہے.
اس بھائى كو اپنى ملازمت كا اعتراف كرنا چاہيے تھا، قرض كے غض نظر جو اس نے ان سے چھپا ركھا تھا.
جب كسى مسلمان شخص كو اللہ تعالى لوگوں كا ناحق مال كھانے سے توبہ كى توفيق ديتا ہے تو اس توبہ كى شروط ميں صاحب حق كے حقوق كى واپس بھى شامل ہے، اگرچہ وہ كافر ہى كيوں نہ ہو، اور اگر پبلك الاؤنس سينٹر والوں كو مال واپس كرنے ميں كچھ مشكلات اور تذليل اور سزا كا خوف و خدشہ ہو تو اس كے ليے كوئى ايسا مناسب طريقہ تلاش كرنا جائز ہے جس ميں صاحب حق كو اس كا حق بھى ادا ہو جائے اور حق واپس كرنے والى كى عزت ميں بھى كوئى فرق نہ آئے، اور نہ ہى اسے كوئى مشكل پيش آئے، وہ يہ رقم ڈاك كے ذريعہ ارسال كردے يا پھر كسى شخص كو وہاں پہنچانے كى ذمہ دارى دے اور اپنا نام نہ ذكر كرے، اور نہ ہى ان كے ساتھ كيا ہوا معاملہ ذكر كرے، اس ليے كہ حقوق كى واپس ميں واپس كرنے والے كا نام اور شہريت وغيرہ ظاہر كرنے كى شرط نہيں بلكہ صرف صاحب حق تك حق واپس كرنا مقصود ہوتا ہے.
اس حكم كے دلائل اور علماء كرام كے اقوال اور توبہ كے بعد اس شخص پر كيا ذمہ دارى عائد ہوتى ہے يہ سب كچھ جاننے كے ليے مندرجہ ذيل سوالات كے جوابات ضرور ديكھيں:
(47086 ) اور (7545 ) اور (14367 ) اور (31234 ).
اور يہ كہ وہ پورى رقم كا مالك نہيں ہے، اسے چاہيے كہ اس وقت جتنى رقم اس كے پاس ہے وہ واپس كردے اور باقى اس كے ذمہ قرض رہے گا، جب استطاعت ہو وہ بھى واپس كردے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات