اگر ميں ايسے شخص سے علاج كراؤں جس كے پاس مسلمان جن طبيب ہوں تو كيا ميرا روزہ ٹوٹ جائيگا ؟
مسلمان جن سے تعاون ليكر علاج كرنے كا دعوى كرنے والے طبيب سے علاج كروانے كا حكم
سوال: 78546
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
علاج وغيرہ ميں جن كى معاونت حاصل كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس قسم كا دعوى كرنے والے شخص كے پاس جانا جائز ہے.
كسى مسلمان شخص كو كے لائق نہيں كہ وہ فى الواقع كسى كے علاج اور اس ميں اثر سے دھوكہ كھائے، ديكھيں يہ دجال آسمان كو كہےگا بارش برساء تو آسمان سے بارش برسنے لگےگى، اور زمين كو كہےگا: اپنے خزانے اگل دو تو زمين خزانے نكال باہر كريگى، تو كيا مسلمان اس كے دھوكہ ميں آكر اس كے اس دعوى كى تصديق كر دےگا ؟ !
ہو سكتا ہے يہ فتنہ و آزمائش اور اللہ كى جانب سے ان كے ليے بتدريج گرفت ميں لينے كا باعث ہو.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
ہم ان كو بتدريج وہاں سے ( گرفت ميں ) ليے جارہے ہيں جہاں سے انہيں خبر بھى نہيں الاعراف ( 182 ).
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
اگر ضرورت پڑے تو مسلمان جنوں كا علاج معالجہ ميں تعاون لينے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” علاج معالجہ ميں جن سے تعاون نہيں لينا چاہيے، اور نہ ہى اس سے سوال كرنا چاہيے، بلكہ مريض مشہور و معروف ڈاكٹر حضرات سے دريافت كرے، ليكن كسى بھى جن كى طرف رجوع مت كرے؛ كيونكہ يہ جنوں كى عبادت اور ان كى تصديق كا وسيلہ ہے؛ اس ليے جنوں ميں كافر بھى ہيں، اور مسلمان جن بھى، اور بدعتى بھى، اور آپ كو ان كے حالات كا علم نہيں، اس ليے ان پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى ان سے كچھ دريافت كيا جائے چاہے وہ آپ كے سامنے كسى بھى شكل ميں آئيں.
بلكہ آپ اہل علم اور طب كا علم ركھنے والے انسانوں سے اس كے متعلق دريافت كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى نے مشركوں كى مذمت كرتے ہوئے فرمايا ہے:
بات يہ ہے كہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب كيا كرتے تھے، جس سے جنات اپنى سركشى ميں اور بڑھ گئے الجن ( 6 ).
اور اس ليے بھى كہ يہ ان ميں اعتقاد اور شرك كا وسيلہ ہے، اور يہ وسيلہ ان جنوں سے استعانت اور نفع طلب كرنا ہے، اور يہ سب كچھ شرك ہے ” انتہى.
ماخوذ از: مجلۃ الدعوۃ عدد نمبر ( 1602 ) ربيع الاول 1418 ھـ صفحہ نمبر ( 34 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” جن سے استعانت نہيں كى جائيگى، نہ تو كسى مسلمان جن سے، اور نہ ہى اس سے جو مسلمان ہونے كا دعوى كرے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے وہ مسلمان ہونے كے دعوى ميں جھوٹا ہو، اور صرف انسانوں كے ساتھ دخل اندازى كرنے كے ليے دعوى كر رہا ہو، اس ليے يہ دروازہ ابتدا سے ہى بند كر ديا جانا چاہيے.
جن سے معاونت و استعانت لينى جائز نہيں چاہے وہ اپنے مسلمان ہونے كا دعوى ہى كريں، كيونكہ اس طرح يہ دروازہ كھل جائيگا.
اور پھر غائب سے استعانت جائز نہيں ہے، چاہے وہ جن ہو يا كوئى اور، اور چاہے مسلمان ہو يا غير مسلم، صرف استعانت و مدد اس سے طلب كى جاسكتى ہے جو حاضر ہو اور پھر وہ مدد كرنے پر قادر بھى ہو.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے موسى عليہ السلام كے متعلق فرمايا ہے:
اور موسى ( عليہ السلام ) ايك ايسے وقت شہر ميں آئے جبكہ شہر كے لوگ غفلت ميں تھے، تو يہاں دو شخصوں كو لڑتے ہوئے پايا، يہ ايك تو اس كے رفيقوں ميں سے تھا، اور يہ دوسرا اس كے دشمنوں ميں سے، اس كى قوم والے نے اس كے خلاف جو اس كے دشمنوں ميں سے تھا اس سے فرياد كى، جس پر موسى ( عليہ السلام ) نے اسےمكا مارا جس سے وہ مر گيا موسى ( عليہ السلام ) كہنے لگے يہ تو شيطانى كام ہے، يقينا شيطان دشمن اور كھلے طور پر بہكانے والا ہے القصص ( 15 ).
يہ حاضر ہو اور مدد كرنے كى استطاعت و قدرت بھى ركھے تو عادى امور ميں ايسا كرنے ميں كوئى مانع نہيں ” انتہى.
ديكھيں: السحر والشعوذۃ صفحہ ( 86 – 87 ).
دوم:
رہا روزہ تو ان شاء اللہ يہ صحيح ہے، اس سے فاسد نہيں ہوتا، ليكن يہ ہے كہ روزے كا اجروثواب كم ہوگا، اور معاصى كے ارتكاب سے تو بعض اوقات روزے كا اجروثواب بالكل ہى ختم ہو جاتا ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 50063 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات