0 / 0

ہر تنگى اور مشكل كا سبب نماز ادا نہ كرنا

سوال: 83997

ميں تئيس برس كى لڑكى ہوں، اور صراحت سے كہتى ہوں كہ ميں نماز ادا نہيں كرتى، اور اگر نماز كے كھڑى بھى ہو جاؤں تو سب فرض ادا نہيں كرتى، اور گانے بھى سنتى ہوں، ليكن ـ اللہ گواہ ہے ـ يہ موضوع ميرے ليے نفسياتى مشكلات پيدا كررہا ہے، ميں اللہ كى اطاعت كرنا چاہتى ہوں، ميں اللہ سے ڈرتى ہوں، اور مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے، ميرا رب اللہ وحدہ لا شريك ہے، اور ميں حبيب مصطفى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى سيرت سے محبت كرتى ہوں، اور سيرت كے قصے اور واقعات سن كر متاثر ہوتى ہوں. اللہ كے كرم سے ميں اس برس عمرہ كے ليے بھى گئى اور مجھے اسكى بہت زيادہ خوشى ہے، ليكن ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميں منكر ہوں، يا پھر ميرے اور كافروں ميں كوئى فرق نہيں، كيونكہ ميں نماز ادا نہيں كرتى، ميں نے پابندى سے نماز ادا كرنے كى بہت كوشش كى ہے ليكن پتہ نہيں ميرے ساتھ كيا ہوتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ايك لمبے عرصہ تك ميں نے نماز بالكل ادا نہيں كى.
ميں محسوس كرتى ہوں كہ ميں بہت سارے دينى امور سے جاہل ہوں، اور يہ بھى شعور ميں آتا ہے كہ اللہ تعالى ميرا كوئى بھى عمل چاہے نماز ہو يا روزہ يا عمرہ يا كوئى بھى دينى معاملہ قبول نہيں فرمائيگا، اور لا محالہ ميرا ٹھكانہ جہنم ہے، مجھے كسى ايسے شخص كى ضرورت ہے جو ميرا ہاتھ تھام لے، مجھے نصيحت كرے، اور مجھے ضائع ہونے سے بچائے، اور جس حالت ميں ہوں اس سے نكالے، ميں اس حالت ميں رہنا پسند نہيں كرتى!!
اس سے بھى بڑى ايك اور مشكل يہ ہے كہ: ميں محسوس كرتى ہوں ميں نے رمضان كا ايك بھى روزہ نہيں ركھا، حالانكہ روزے ركھنے ميں كوئى چيز مانع بھى نہيں!!
صراحت سے كہنا چاہتى ہوں كہ مجھے يہ يقينى علم نہيں كہ رمضان كے ايام تھے يا كہ شوال كے چھ روزے، ہمارے گھر ميں ہر سال ان چھ ايام كے روزے ركھنے كى عادت ہے، تو مجھ پر امور خلط ملط ہو گئے ہيں، يہ مشكل مجھے اس وقت درپيش آئى جب ميں اللہ سے دور تھى، مجھے علم ہے كہ جس نے بھى بغيركسى عذر رمضان كا روزہ نہ ركھا اللہ تعالى اسكا روزہ قبول ہى نہيں كرتا، اور اس كے ذمہ كفار ہے، تو مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ ميرى مدد كريں، اور مجھے معلومات فراہم كريں، ميں بہت زيادہ نااميد ہو چكى ہوں، اللہ تعالى اس عمل كو آپ كے ميزان حسنات ميں سے بنائے، ان شاء اللہ، اور اللہ تعالى سب مسلمانوں كى جانب سے آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ميرى فاضلہ بہن سب سے پہلے تو آپ مشكل پيش آنے كى جگہ متعين كريں، اور پھر ا سكا علاج كريں، اور اگر آپ اس كى تحديد كے سلسلہ ميں ہمارى مدد چاہيں تو ہم يہ كہينگے كہ: مشكل تو آپ كے اپنے اندر ہے كسى دوسرى چيز ميں نہيں! اور دوسروں كى جانب سے پيش كردہ تعاون اس وقت تك فائدہ مند نہيں ہو سكتا جب تك آپ اپنے آپ كو نجات كى طرف نہ لے جائيں.

اور جو احساسات آپ نے سوال ميں بيان كيے ہيں وہ اس بات كى دليل ہے كہ آپ ميں اصلاح اور استقامت كا مادہ موجود ہے، كيونكہ مومن شخص تو اپنا محاسبہ خود كرتا، اور اس كى ڈانٹ ڈپٹ كرتا ہے، اور لگتا ہے كہ آپ ايسا كر رہى ہيں.

اور پھر مومن شخص تو كمى و كوتاہى اور گناہوں سے ڈرتا رہتا ہے اور وہ اسے بہت بڑا پہاڑ سمجھتا ہے كہ كہيں وہ اس كے اوپر ہى نہ گر جائے اور ظاہر يہى ہوتا ہے كہ آپ كو اس كا بھى احساس ہے.

اور پھر مومن تو اپنے ايمان اور اسلام كے ساتھ بلند ہوتا ہے، اور اس عظيم دين كے ساتھ منسوب ہو كر سعادت و عزت حاصل كرتا ہے، اور اپنے نبى كريم محمد صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرتا ہے، آپ كى اى ميل اس كى واضح دليل ہے ؟!!

تو پھر تو پھر ان صفات كے ساتھ دين كے سب سے بڑے فرض نماز ميں كمى و كوتاہى اور تقصير كس طرح ہو گئى ؟! ہمارے پاس كى تاويل تو سوائے اس كے اور نہيں كہ نفس كے پيچھے چلنے اور اس پر كنٹرول ميں كمزورى ہے، وگرنہ نماز كى ادائيگى ميں نہ تو كوئى زيادہ وقت صرف ہوتا ہے، اور نہ ہى كوئى مشقت، صرف چند منٹوں كے بندہ اپنے رب كے ليے خلوت اختيار كر كے اپنے رب سے مناجات كرتا اور اپنى حاجات پيش كرتا ہے، اور اس كے سامنے دنيا كا بوجھ ركھتا، اور اس كى رحمت اور اللہ كے شوق كى شكايت كرتا ہے.

تو اگر ہمارا نفس ان چند محدود منٹوں كى پابندى نہيں كرتا سكتا، تو پھر ہم اپنى زندگى ميں كبھى بھى كاميابى كا گمان نہ كريں، كيونكہ نفس كو چلانے كے ليے عزم و حزم كى ضرورت ہے، اور ہم مسلمان ہيں اللہ تعالى نے ہمارى طاقت سے زيادہ ہميں مكلف نہيں كيا، بلكہ ہميں ا سكا بھى مكلف نہيں كيا جو ہم پرمشقت كا باعث ہو، اللہ سبحانہ و تعالى تو پسند كرتا ہے كہ ہمارى توبہ قبول كرے، اور ہمارے گناہوں كى ہم سے تخفيف كرے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تو تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى تو تمہارے ليے وضاحت سے بيان كرنا چاہتا ہے، اور تمہيں تم سے پہلے ( نيك ) لوگوں كى راہ پر چلائے، اور تمہارى توبہ قبول كرے، اور اللہ تعالى جاننے والا حكمت والا ہے

اور اللہ تعالى چاہتا ہے كہ وہ تمہارى توبہ قبول كرے، اور جو لوگ شہوات كے پيچھے چلتے ہيں وہ چاہتے ہيں كہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ

اللہ تعالى چاہتا ہے كہ تم سے تخفيف كردے، كيونكہ انسان كمزور پيدا كيا گيا ہے النساء ( 26 – 28 ).

اور پھر نماز تو رحمت ہے جو اللہ تعالى نے اپنى جود و كرم سے ہم پر فرض كى ہے، جو شخص بھى نماز كى پابندى كرتا اور اس كى ادائيگى اس طرح كرتا ہے جس طرح حق ہے تو وہ اللہ تعالى كا فضل و كرم ديكھےگا جب اللہ نے يہ نماز ہم پر فرض كى، اور انسان كو يہ پتہ چلےگا كہ محروم تو وہ ہے جس نے اپنے آپ كو اللہ تعالى سے تعلق قائم كرنے سےمحروم ركھا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نماز بہترين فريضہ ہے، جو شخص زيادہ ادا كرنے كى استطاعت ركھتا ہے وہ زيادہ ادا كرے "

اسے طبرانى نے ( 1 / 84 ) روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ( 390 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ميرى بہن آپ ديكھيں كہ اللہ تعالى نے نماز كے ليے طہارت فرض كرنے كے بعد كيا فرمايا ہے:

اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا، ليكن تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تا كہ تم پراپنى نعمتيں پورى كرنا چاہتا ہے، تا كہ تم شكر ادا كرو المآئدۃ ( 6 ).

اور جس نبى مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم اور جس كى سيرت طيبہ سے آپ محبت كرتى ہيں، وہ تو يہ فرمايا كرتے تھے:

" نماز ميرى آنكھوں كى ٹھنڈك بنائى گئى ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3940 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخيص الحبير ( 3 / 116 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو پھر كوئى مومن اپنے ليے اس پر كيسے راضى ہو سكتا ہے كہ وہ ان سارى خير و بركات اور بھلائى سے محروم رہے ؟.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہائے افسوس و حسرت وقت كيسے بسر ہوتا ہے، اور عمر ختم ہوتى جاتى ہے، اور دل پر پردہ پڑا ہوا ہے اس نے اس خوشبو كو سونگھا تك نہيں اور اسى طرح دنيا سے نكل گيا جس طرح آيا تھا، اور سب سے اچھى اور پاكيزہ چيز كو چكھا تك نہيں، بلكہ وہ اس دنيا ميں جانوروں كى طرح رہا اور اس دنيا سے مفلسوں كى طرح چلا گيا، تو اس كى زندگى عجز والى زندگى تھى، اور اس كى موت غمگين تھى، اور ا سكا حشر ميں اٹھنا حسرت و افسوس ہے.

اے اللہ تيرى ہى تعريفات ہيں، اور تيرى جانب ہى شكوہ و شكايت ہے، اور تو ہى مدد گار ہے، اور تجھ سے مدد حاصل كى جاتى ہے، اور تجھ پر ہى بھروسہ ہے، اور تيرے علاوہ كوئى بھى طاقت دينے والا نہيں"

ديكھيں: طريق الھجرتين ( 327 ).

ميں يہ كلام آپ كے سامنے اس ليے ذكر نہيں كر رہا كہ آپ جس نا اميدى كو محسوس كر رہى ہيں اس ميں اضافہ ہو، بلكہ اس ليے ذكر كر رہا ہوں كہ تا كہ آپ اس سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كرنے كى كوشش و جدوجھد كريں، كيونكہ يہ تو فرائض ميں سب سے آسان فرض كى ادائيگى ميں آپ كى سستى و كاہلى كى بنا پر آپ كو پہنچى ہے، تو آپ نے يہ جان ليا كہ آپ اس كے علاوہ دوسرے فرائض كى ادائيگى سے تو زيادہ عاجز ہيں.

اور آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى زندگى كو اللہ كے متعلق نا اميدى كى زندگى مت بنائيں؛ اور يہ جاننا بھى ضرورى ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى تو نا اميدوں كو پسند ہى نہيں كرتا:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اپنے رب كى رحمت سے نا اميد تو صرف گمراہ اور بہكے ہوئے لوگ ہى ہوتے ہيں الحجر ( 56 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى اپنے ان بندوں سے محبت كرتے ہيں جو اس كى رحمت اور اس كے فضل، اور اس كے كرم كى وسعت سے خوش ہوتے ہيں كہ اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور غلطيوں كو معاف كرتا ہے.

بلكہ اللہ تعالى كا تو فرمان اس طرح ہے:

مگر وہ جو توبہ كر لے، اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائياں نيكيوں ميں بدل ڈالتا ہے، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور جو بھى توبہ كرے اور نيك اعمال كرے تو وہ حقيقتا اللہ تعالى كى طرف سچا رجوع كرتا ہے الفرقان ( 70 – 71 ).

اور بعض حكماء تو يہ كہتے ہيں:

" اميد تو عمل سے پيدا ہوتى ہے، اور شيطان نے تجھے جس نا اميدى كى حالت ميں پھينك ديا ہے اس سے تو آپ اس وقت ہى نكل سكتے ہيں جب عمل شروع كرينگے، اور استقامت كا التزام كرنے كى كوشش كرينگے، چاہے ابتدا ميں كچھ نقص و كمى بھى ہو "

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كى رحمت سے نا اميد مت ہو، يقينا اللہ كى رحمت سے نا اميد وہى ہوتے جو كافر ہيں يوسف ( 87 ).

كيونكہ اميد ہى تو ايك ايسى چيز ہے جو بندے اميد والے كام پر عمل پيرا ہونے كى سعى وجدوجھد پيدا كرتى ہے، اور نا اميدى تو پيچھے رہنے اور سستى و كاہلى پيدا كرتى ہے، اور بندوں كے ليے اميد كے ليے سب سے بہتر تو اللہ كا افضل و كرم اور ا سكا احسان، اور اس كى رحمت ہے جس كى اميد ركھى جائے.

كيونكہ اللہ كى رحمت سے تو كافر ہى نا اميد ہوتے ہيں؛ اس ليے كہ وہ ـ اپنے كفر كى بنا پر ـ اس كى رحمت سے دور كر ديے جاتے ہيں، اور اللہ كى رحمت بھى ان سے دور رہتى ہے، اس ليے آپ كفار سےمشابہت اختيار مت كريں، يہ اس كى دليل ہے كہ بندے كے ايمان كے حساب سے اللہ كى رحمت كى اميد ہوتى ہے "

ماخوذ از: تفسير سعدى.

سب سے پہلى چيز جس كى آپ ابتدا كريں وہ يہ ہے كہ آپ اپنے اندر بہت زيادہ ہمت پيدا كريں، اور نماز پابندى سے ادا كرنے كى حرص پيدا كريں، جس طرح آپ دوسرے دنياوى امور مثلا كھانا پينا، اور پڑھائى اور شادى وغيرہ كى ہمت محسوس كرتى ہيں، كيونكہ ہر عمل سے قبل اہتمام اور سوچ كا ہونا ضرورى ہے.

سلف ميں سے بعض تو اپنے نفس كے ساتھ جہاد كرنے كے ليے كثرت سے نوافل ادا كيا كرتے تھے، حتى كہ ثابت البنانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں نے بيس برس تك نما زكى صعوبت اورمشقت برداشت كى، اور بيس برس تك اس سے نفع اٹھايا "

اور پھر صرف يہ اہتمام اور سوچ و فكر ہى كافى نہيں، بلكہ اہتمام اور فكر و سوچ كے ساتھ ساتھ نماز كى پابندى كے وسائل بھى پيدا كرنا ہونگے، اور آپ اپنے نفس كے ساتھ كس طرح حيلہ بازى كرتى ہيں كہ وہ اللہ تعالى كے فرائض كا التزام نہ كرے، اور پھر انسان تو حسن اسلوب اختيار كرنے كى بہت زيادہ استطاعت و طاقت ركھتا ہے، جو اس كے ليے ممد و معاون ثابت ہوتا ہے.

آپ اس بات كى حرص ركھيں كہ جب مؤذن كى آواز اللہ اكبر سنيں تو فورا اٹھ كر نماز ادا كريں، اور يہ شعور ميں لائيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى تو اس دنيا سے بہت بڑا اور عظيم ہے جس ميں آپ مشغول ہيں، پھر آپ اپنى نماز والى جگہ كھڑى ہو جائيں تاكہ وہ نماز ادا كريں جو اللہ تعالى نے آپ پر فرض كى ہے.

اور ہر نماز كے بعد وہ دعاء پڑھنى نہ بھوليں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر نماز كے بعد پڑھنے كے ليے ہميں سكھائى ہے:

" اللهم أعِنِّي على ذِكْرِك وشُكْرِك وحُسْنِ عِبادتِك "

اے اللہ ميرى مدد فرما تا كہ ميں تيرا ذكر كر سكوں، اور تيرا شكر ادا كر سكوں، اور تا كہ اچھى طرح تيرى عبادت كر سكوں "

آپ نے سوال ميں يہ بيان كيا ہے كہ: آپ كا گھرانہ شوال كےچھ روزے ركھنے كى پابندى كرتا ہے، يہ اصلاح اور احسان كى علامت ہے، جو وقت پر نماز كى ادائيگى ميں آپ كى ممد و معاون ثابت ہو گى، جب آپ ديكھيں گى كہ والدہ اور باقى بھائى بہن وقت پر نماز ادا كرتے ہيں تو آپ بھى ادا كريں، اور اس پر اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ادا كريں.

كتنى ہى شكايئتيں ملتى ہيں كہ والدين اپنى اولاد كو نماز ادا نہ كرنے كى وجہ سے زدكوب كرتے ہيں، اس بنا پرمارتےہيں كہ وہ پردہ نہيں كرتيں، آپ پر تو اللہ كا كرم ہے كہ آپ كو ايسے گھر والے نصيب كيے ہيں جو اللہ كے تقوى ميں آپ كے معاون ہيں.

آپ پابندى سے نماز ادا كرنے واليوں كو سہيلياں بنائيں، اور ان كے ساتھ اٹھيں بيٹھيں جو صراط مستقيم پر چلتى ہيں، اور ان سے نماز پابندى سے ادا كرنے ميں معاونت طلب كريں، اور انہيں كہيں كہ وہ آپ كو نصيحت كرتى رہيں، يہ چيز سب سے بہتر ثابت ہو گى.

آخر ميں يہ گزارش ہے كہ آپ معاصى و گناہوں سے اجتناب كريں كيونكہ يہ ہر بيمارى كى اساس اور جڑ ہے، اور ايك معصيت دوسرى معصيت و نافرمانى كو كھينچ لاتى ہے، تو اس طرح بہت سارى نافرمانياں جمع ہو كر انسان كو ہلاك كر كے ركھ ديتى ہيں، تو پھر انسان نماز سے پيچھے ہٹنا اور سستى كرنا شروع كر ديتا ہے، اور اس كے نور و بركت سے محروم ہو جاتا ہے، اللہ تعالى سب كو سلام ت ركھے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" معاصى و نافرمانياں اس طرح كى دوسرى نافرمانيوں كو پيدا كرتى ہيں، حتى كہ بندے كے ليے انہيں چھوڑنا اور ان سے نكلنا مشكل ہو جاتا ہے، جيسا كہ بعض سلف رحمہ اللہ كا كہنا ہے: نافرمانى اور برائى كى سزا يہ ہے كہ اس كے بعد اور برائى ہوتى ہے، اور نيكي كا اجروثواب يہ ہے كہ اس كے بعد اور نيكى كى جاتى ہے.

ديكھيں: الجواب الكافى ( 36 ).

دوم:

آپ كا رمضان كے روزوں كے متعلق سوال، اور يہ آپ كو شك ہے كہ آپ نے كچھ روزے بغير كسى عذر كے ترك كيے ہيں، اس سلسلہ ميں ہم آپ كو يہ كہينگے كہ:

ان شكوك كى جانب توجہ مت ديں، كيونكہ جب آپ كا ظن غالب يہ ہے كہ آپ نے يہ عبادت اپنے گھر والوں كے ساتھ بروقت ادا كى ہے، اور برى الذمہ ہونے كے ليے ظن غالب كافى ہے، اس كے بعد شك كا كوئى اعتبار نہيں.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" طواف اور سعى اور نماز مكمل كر لينے كے بعد شك كى طرف توجہ نہيں دى جائيگا؛ كيونكہ عبادت كا سليم ہونا ظاہر ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 143 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اگر عبادت مكمل كر لينے كے بعد شك پيدا ہو تو وہ قابل التفات نہيں، جب تك كہ اس ميں يقين پيدا نہ ہو جائے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 14 ) سوال نمبر ( 746 ).

پھر يہ كہ بغير كسى عذر كے روزے ترك كرنے سے نہ تو قضاء واجب ہوتى اور نہ ہى كفارہ واجب ہوتا ہے، بلكہ توبہ و استغفار كرنا واجب ہوتا ہے، جيسا كہ سوال نمبر ( 50067 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اجروثواب سے نوازے، اور آپ كے دل كو دين حق اور حق پر ثابت ركھے، اور آپ كو شيطان مردود سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android